مضامین

مسلم ریزرویشن کی مخالفت: بی جے پی کا سیاسی نعرہ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

اب جب کہ عام انتخابات سے پہلے ملک کی بعض اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، بی جے پی نے ہندو ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے ایک ایسے مسئلہ کو چھیڑ دیا ہے جس کا تعلق نہ ملک کی سلامتی سے ہے اور نہ اس سے ملک کے دوسرے طبقوں کو کوئی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ملک کے آئین اور قانون کے تحت ملک کے ایک اہم طبقہ کو ان کی معاشی، سماجی اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے سابقہ حکومتوں نے ریزرویشن کی شکل میں کچھ مراعات دی ہیں تو اس سے بی جے پی قائدین کو کیوں تکلیف ہورہی ہے۔ لیکن بی جے پی کو روز اول سے اس ملک کے مسلمانوں سے بیر رہا ہے اس لئے انہیں یہ بات گوارا نہیں ہے کہ مسلمان ریزرویشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیم اور روزگار کے میدان میں آگے بڑھیں۔ ان کی اس ترقی کو روکنے کے لئے کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے حالیہ دنوں میں ریاست کے مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں دیے جانے والے چار فیصد ریزرویشن کو بیک جنبش قلم ختم کردیا۔ شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے کرناٹک حکومت کے اس جارحانہ اقدام کے خلاف 9/ مئی تک روک لگادی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بسواراج بومئی حکومت کے اس فیصلہ پر ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔ کرناٹک ریاستی اسمبلی انتخابات سے عین قبل بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کا معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ وہ مسلمانوں کو باوقار مقام دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔ 10/مئی کو کرناٹک کے رائے دہندے اپنے ووٹ کا استعمال کرنے والے ہیں۔آثار و قرائن بتا رہے ہیں کرناٹک میں بی جے پی کا کنول ڈوبنے والا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران ریاست میں فرقہ پرستی کا جو بدترین کھیل کھیلا گیا، اس سے کرناٹک کے مسلمان تو پریشان ہوئے لیکن ساتھ میں دیگر قوموں کے سمجھ دار اور انصاف پسند افراد نے محسوس کیا کہ بی جے پی حکومت ہندو۔مسلم منافرت پھیلا کر عوام کو گمراہ کررہی ہے۔پانچ سالہ دور میں کرناٹک حکومت نے محض متنازعہ موضوعات کو اچھال کر اپنا الو سیدھا کیا۔ مسلم لڑکیوں کے حجاب کے مسئلہ کو ایک ایسا گھمبیر مسئلہ بنادیا کہ پوری ریاست فرقہ وارانہ تشدد کی شکار ہوگئی۔ مسلم طالبات کو تعلیم سے روکنے کے لئے حجاب کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا۔ ایک طبقہ اگر اپنے مذہبی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے تعلیم اور روزگار حاصل کرتا ہے تو اس سے حکومت کو یا فسطائی طاقتوں کو ہیجان میں مبتلا ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ حجاب کے بعد مسجدوں میں لاو¿ڈ اسپیکر پر اذان دینے کی پابندی کی بات آئی،پھر حلال گوشت پر امتناع کا مطالبہ کیا کیا۔ عیدگاہوں میں مورتیاں رکھ کر شر پسندی کا بدترین مظاہرہ کیا گیا۔ یہ سارے حربے صرف اس لئے آزمائے جارہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اقتدار کے سنگھاسن پر قبضہ کیا جائے۔لیکن کرناٹک کے عوام نے بی جے پی کی متعصبانہ پالیسیوں کا بغور جائزہ لے لیا اور اس بات کے پورے امکانات ہیں کہ بی جے پی کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بری طرح ہزیمت کا شکار ہوگی اور 13/مئی کو نکلنے والے انتخابی نتائج بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔مختلف انتخابی سروے بھی کرناٹک میں کانگریس کی حکومت بننے کے اشارے دے رہے ہیں۔کانگریس نے وعدہ کیا کہ اگر ریاست میں کانگریس کی حکومت بنتی ہے تو مسلم ریزرویشن کو بحال کرنا اس کی اولین ترجیح ہوگی۔سپریم کورٹ نے بھی 9/مئی تک حکم التواءجاری کردیا ہے۔ اس طرح کرناٹک میں ایک سیکولر حکومت کے قیام سے مسلمانوں کو دیے جانے والے ریزرویشن کو پھر کوئی چھین نہیں سکے گا۔
تلنگانہ ریاست میں بھی اس سال کے اواخر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔یہاں بھی بی جے پی اپنے قدم جمانے کے لئے اپنے ہندتوا ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ تلنگانہ ریاست ملک کی ان منفرد ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں ابھی فرقہ واریت کا دور دورہ نہیں ہے۔ ریاست کے عوام میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ تلنگانہ میں ہندوو¿ں اور مسلمانوں یا دیگر طبقات کے درمیان کوئی بھید بھاو¿ نہیں ہے۔بی جے پی اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے تلنگانہ کو بھی فرقہ پرستی کی آگ میں جھلسا دینا چاہتی ہے۔اسی لئے وہی موضوعات کو یہاں بھی چھیڑا جارہا ہے۔گزشتہ دنوں ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے حیدرآباد کے قریبی علاقہ چیوڑلہ میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ تلنگانہ میں بی جے پی کو اقتدار ملتے ہی مسلم تحفظات ختم کردیے جائیں گے۔ پہلے تو تلنگانہ میں بی جے پی حکومت بنانے کا جو خواب دیکھ رہی ہے ،اس کے پورا ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔بی جے پی نے تلنگانہ عوام کے لیے وہ کون سے کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ وہ بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ریاست کے اکثریتی طبقہ کے لیے بھی بی جے پی قائدین نے کوئی فلاح و بہبود کا کام نہیں کیا اور نہ ریاست کی ترقی کے لیے ان کی کوئی خدمات رہیں۔تلنگانہ حکومت کو ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ مرکز کی بی جے پی حکومت تلنگانہ کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھی ہے۔ کسی بڑے پراجیکٹ کو ریاست کے لئے منظور نہیں کیا گیا۔ مرکز کی بی جے پی حکومت سے تلنگانہ کے بی جے پی قائدین فنڈز دلانے میں ناکام ہوگئے۔پھر کس طرح وہ تلنگانہ میں بی جےپی حکومت تشکیل پانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔جمہوریت میں ہر سیاسی پارٹی کو برسر اقتدار آنے کے بارے میں سوچنے اور اس کے لیے حکمت عملی اختیار کرنے کا حق ہے۔لیکن اقتدار کے حصول کے لیے کسی طبقہ کے ساتھ ناانصافی کا مظاہرہ کرنا اور اس طبقہ کو تعصب کی نگاہ سے دیکھنا یہ جمہوریت کے عین خلاف ہے۔ بی جے پی ، ہر جگہ اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے مسلمانوں کو تختہ مشق بناتی ہے تو اس سے ملک کی جمہوریت پر بھی سوال اٹھ سکتا ہے۔ امیت شاہ نے تلنگانہ میں برسراقتدار آنے کے لئے عوامی اعتماد کو حاصل کرنے کے بجائے مسلمانوں سے ان کے آئینی اور قانونی حق کو چھیننے کا دعویٰ کرکے یہ باور کرادیا کہ بی جے پی ،مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی کے حق میں نہیں ہے۔ایک طرف ملک کے وزیراعظم سب کا ساتھ،سب کاوکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ لگاتے ہیں اور بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت سب کے ساتھ انصاف اور مساوات کی پابند ہے اور دوسری طرف ان کے دست راست کھلے عام اعلان کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو کسی قسم کا ریزرویشن دینے کے حق میں نہیں ہیں اور جہاں جہاں بی جے پی حکومت قائم ہوگی،وہاں مسلمانوں کو دیئے گئے تحفظات ختم کردئے جائیں گے۔ کرناٹک کے بعد تلنگانہ میں مسلم ریزرویشن کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بی جے پی کوشش کررہی ہے۔اس کے پس پردہ صرف مقصد یہ ہے کہ اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف ورغلا کر ان کے ووٹ حاصل کئے جائیں۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں دیے جانے والے تحفظات بہت ساری سیاسی پارٹیوں اور بالخصوص بی جے پی کی نظروں میں کیوں کھٹکتے ہیں۔کیا واقعی مسلمانوں کو دیے جانے والے ریزرویشن سے اس ملک کے دوسرے طبقوں کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے؟کیا یہ تحفظات ماورائے دستور اور قانون ہیں؟ کیا مسلمان ،سماجی،معاشی، تعلیمی اور سیاسی طور پر اتنے مستحکم ہیں کہ انہیں ریزرویشن کی کوئی ضرورت اب باقی نہیں رہی؟ان سوالات کا اگر باریک بینی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اس ملک کے مسلمانوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں حاشیہ پر لگادیا گیا۔ وہ قوم جس نے اس ملک پر آٹھ سو سال حکمرانی کی اور جس نے اپنے دور حکومت میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنادیا تھا،لیکن امتداد زمانے کا ایسا شکار ہوئی کہ 1947میں ملی آزادی کے ثمرات سے محروم کردی گئی۔جس ملک کو آزاد کرانے کے لیے اس کے آبا ء و اجداد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلا تھا،آزادی وطن کے بعد وہ خود اس ملک میں اجنبی بن کر رہ گئے۔ ان کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ تقسیم ملک کا ان کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان کی حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔نتیجہ یہ نکلا کہ یہ قوم گزرتے وقت کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں پیچھے رہ گئی۔ اس کی حالت زار پر رحم کھا کر ملک کے کچھ انصاف پسند اور رحم دل حکمرانوں نے کچھ مراعات تحفظات کی شکل میں دیے ہیں تو یہ انصاف رسانی کا عمل بی جے پی کو ہضم نہیں ہورہا ہے۔تلنگانہ میں سابق متحدہ آندھرا پردیش کی کی کانگریس حکومت کے وزیر اعلی آنجہانی وائی۔ایس۔راج شیکھر ریڈی نے پہلی مرتبہ ریاست کے مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں چار فیصد تحفظات فراہم کئے تھے۔ ان کی مسلمانوں کے تئیں اس فراخ دلی کے نتیجہ میں آج تلنگانہ میں دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی صورت حال کافی حد تک بہتر ہے۔اس سہولت کے نتیجہ میں مسلم طلباءو طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے اور سرکاری ملازمتوں کے مواقع بھی انہیں حاصل ہوئے۔افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ ایک طبقہ کو دی جانے والی یہ سہولتیں بعض تنگ نظر افراد کو پسند نہیں آئیں اور وائی ایس آر حکومت کے اس انسانی ہمدردی کے جذبہ کے بنیاد پر کئے جانے والے اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ اب بھی سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیر دوراں ہے۔آنے والے دنوں میں آیا یہ چار فیصد تحفظات باقی رہیں گے یا نہیں اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔بی جے پی ،عدالت کے فیصلہ سے پہلے ہی اس کو ختم کردینا چاہتی ہے۔بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر کس بھی طبقہ کو ریزرویشن دینے کی مخالف ہے۔وہ سب کو برابر کا درجہ دیتی ہے اور وہ مذہب کی بنیاد پر کوئی بھید بھاو¿ کی قائل نہیں ہے۔ ملک میں اس سوال پر بحث کی ضرورت ہے کہ آیا مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں تحفظات مذہب کی بنیاد پر دیے جارہے ہیں؟کسی حکومت نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مسلمانوں کو جو تحفظات دیے جارہے ہیں وہ مذہب کی بنیاد پر ہیں۔مسلمانوں کویہ مراعات مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی معاشی ،تعلیمی و سماجی پسماندگی کی بنیاد پر دیے جارہے ہیں۔آزادی کے پچہتر سالوں کے دوران ان کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی اس کے ازالہ کے لیے یہ کوشش کی گئی تاکہ مسلمان تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں اپنا کچھ حصہ پاسکیں۔بی جے پی ،ریزرویشن کے مسئلہ کو مذہب سے جوڑ کر ملک کے عوام کو گمراہ کررہی ہے۔جہاں تک مسلمانوں کے مذہب کا معاملہ ہے۔یہاں ذات پات کی کوئی تخصیص ہی نہیں ہے۔اعلیٰ ذات یا ادنی ذات کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔مسلمان مذہب کی اساس پر نہیں بلکہ سماجی،تعلیمی اور معاشی پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات کا مطالبہ کرتے ہیں۔اور یہ ان کا دستوری اور قانونی حق ہے۔ ملک کے دستور میں اس بات کی وضاحت کردی گئی کی کہ ایک فلاحی ریاست کی تشکیل کے لیے سب کے ساتھ انصاف اور مساوات ہو۔کوئی طبقہ بھی زندگی کے کسی شعبہ میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔بی جے پی،مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے خلاف ہے لیکن کرناٹک میں مسلمانوں کے چار فیصد تحفظات کو چھین کر یہ تحفظات کس کو دیے گئے؟ دو فیصد تحفظات لنگایت طبقہ کو اور دو فیصد ووکالیگا طبقہ کو دیے گئے۔کیا یہ تحفظات مذہب کی بنیاد پر نہیں دیے گئے؟
مسلمانوں کو آزادی کے بعد ان کی آبادی کے تناسب سے تعلیم اور روزگار میں سہولتیں دی جاتیں تو آج ہندوستان کے مسلمان اس قدر پسماندہ نہ ہوتے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ یہ وہ آئینہ ہے جس میں حکمران اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔جسٹس سچر نے پورے ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے اپنی رپورٹ کے ذریعہ حکومت تک پہنچایا۔ کانگریس کی منموہن سنگھ حکومت نے مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے یہ کمیٹی قائم کرکے ایک مستحسن اقدام کیا۔ لیکن اس کی سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہ کرکے صرف مسلمانوں کے آنسو پونچھنے کا کام کیا۔اب تو بی جے پی حکومت میں اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں حکومت سنجیدگی سے غور و خوص کرکے کوئی ٹھوس اقدامات کرے۔جو کچھ مراعات اور سہولتیں مسلمانوں کے کچھ طبقات کو ریزرویشن کی صورت میں حاصل ہیں ،اس کو بھی بی جے پی ختم کرنے کے لئے بے چین ہے۔یہ سب دراصل سیاسی ہتھکنڈے ہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے بی جے پی 2024 کی مہا بھارت جیتنا چاہتی ہے۔دیکھنا یہ ہے ملک کے عوام بی جے پی کی اس زہریلی ذہنیت کے خلاف متحد ہوکر اسے ایوان اقتدار سے باہر کرتے ہیں یا پھر اس کے پروپیگنڈا کا شکار ہوکر اس کے دام فریب میں پھنس جاتے ہیں۔
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

a3w
a3w