رام پنیانی
حال ہی میں (22 جنوری 2024) ایودھیا کے رام مندر میں پران پرتشٹھا کے موقع پر ایک بہت ہی شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں بالخصوص شمالی ہندوستان میں مذہبیت کے اجتماعی مظاہرے ہوئے۔ اس موقع پر ہم نے دیکھا کہ سیاسی طاقت اور مذہبی طاقت دونوں وزیر اعظم نریندر مودی میں مرکوز تھیں۔ ایودھیا کے بعد مودی نے ابوظہبی میں ایک بڑے مندر (شری سوامی نارائن) کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر زبردست جشن منایا گیا اور اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ اور ابھی کچھ دن پہلے مودی نے اتر پردیش میں کالکی دھام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
مندروں سے جڑے ان تہواروں کے سلسلے سے متاثر ہو کر، بہت سے دائیں بازو کے مفکرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مودی وہ پہلے سیاست دان ہیں جو نوآبادیاتی سماج کے بعد کی ثقافت کا ترک نوآبادیات کررہے ہیں۔
نوآبادیات نے جنوبی ایشیا پر کیا اثرات مرتب کیے؟ جنوبی ایشیا کا معاشرہ بنیادی طور پر جاگیردارانہ تھا جہاں جاگیردار اور بادشاہ حکومت کرتے تھے اور پروہت طبقہ ان کی حکمرانی کو جائز قرار دیتا تھا۔ برطانیہ جنوبی ایشیاء بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے بیشتر حصے کو نوآبادیاتی بنانے میں کامیاب رہا۔ انگریزوں کا زور یہاں کی دولت کو لوٹنا اور ہندوستان کو انگلستان میں پیدا ہونے والی اشیا کی ایک بڑی منڈی کے طور پر استعمال کرنا تھا۔
اس کے لیے اسے یہاں نوآبادیاتی ریاست کا ڈھانچہ بنانا پڑا۔ انہیں نقل و حمل اور تعلیم کی سہولیات کو فروغ دینا تھا اور ایک جدید انتظامی نظام قائم کرنا تھا۔ برطانوی حکمرانوں نے ستی جیسی کچھ بھیانک رسموں کے خاتمے کی حمایت کی، لیکن جہاں تک بڑی اصلاحات اور ثقافتی تبدیلیوں کا تعلق ہے، جیوتی راؤ پھولے، ساوتری بائی پھولے، امبیڈکر اور گاندھی جیسے لوگوں کو ان کے لیے لڑنا پڑا۔
کسی بھی معاشرے کا کلچر مستقل نہیں ہوتا۔ یہ مسلسل بدل رہا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں بھی ملک میں بہت سی ثقافتی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مغرب کی اندھی تقلید ان ثقافتی تبدیلیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا۔ سب سے بڑی تبدیلی مساوات پر مبنی معاشرے کی طرف سفر کا آغاز تھا۔ مزید برآں، ہندوستان آہستہ آہستہ ایک جدید صنعتی سماجی ثقافت کی طرف بڑھنے لگا۔ یہ تبدیلیاں مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس جیسی قدامت پسند سیاسی تنظیموں کو پسند نہیں آئیں۔ وہ انہیں مغربی کہتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ پسے ہوئے لوگوں کو برابری کا درجہ دینے کے سفر کے خلاف تھے اور انہوں نے ایسی کوششوں کو ’’مغربی‘‘ کا نام دیا۔
اسی طرح، انہوں نے ہندوستانی آئین کو جو ہندوستان کی سیاسی ثقافت کی ٹھوس شکل تھا کو ’’مغربی اقدار‘‘ پر مبنی قرار دیا۔ ہندو دائیں بازو کے مفکرین ہر اس نظریے کے سخت مخالف تھے جو مساوات کی بات کرتا تھا۔ وہ ’’منوسمرتی‘‘ جیسے مذہبی ضابطوں کی تعریف میں گیت گاتے تھے، جو ذات پات اور صنفی امتیاز کے حامی تھے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ جن سماجی قوتوں نے مغرب مخالف بیانیہ تخلیق کیا ان کی جڑیں طاقت کے جاگیردارانہ ڈھانچے میں تھیں۔ اس کے ساتھ وہ نوآبادیاتی حکمرانوں کی اتحادی بھی تھیں۔ دوسری طرف قومی تحریک ملک کے کلچر کو تشکیل دے رہی تھی اور استعماری حکمرانوں کی مخالفت بھی کر رہی تھی۔
اس سلسلے میں مغربی ایشیا کی ’’اخوان المسلمین‘‘ کی مثال قابل توجہ ہے۔ وہ جمہوری اقدار اور ثقافت کو بھی مغربی قرار دیتی ہے اور اسلام کے نام پر سماجی عدم مساوات اور جابرانہ قوانین مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ہندوستان میں بھی ہندو دائیں بازو‘ مساوات کا مخالف ہے اور اسے مغرب سے درآمد شدہ تصور قرار دیتا ہے۔ ہندوستانی دستور میں موجود اقدار کی مخالفت کو نوآبادیاتی تہذیب کی مخالفت کا جامہ پہنایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے ’’ہندوستانی تہذیب‘‘ کو فخر حاصل ہوتا ہے۔
درحقیقت جس چیز کو نوآبادیاتی ثقافت کی مخالفت کہا جاتا ہے وہ عدل اور بھائی چارے پر مبنی ثقافت کی مخالفت ہے۔ ذات پات اور جنس سے بالاتر ہوکر سب کے لیے انصاف ابھرتی ہوئی ہندوستانی جمہوریت کا ہدف رہا ہے۔ اس جمہوریت میں تکثیریت اور تنوع کی گنجائش ہے۔ صرف چند دہائیاں پہلے تک، ہم فخر سے کہہ سکتے تھے کہ ہندوستان کا مابعد نوآبادیاتی سفر دیگر تمام سابقہ کالونیوں سے بہتر تھا۔ اس کے کلچر میں تسلسل اور تبدیلی دونوں کی گنجائش تھی۔ گاندھی، نہرو، سبھاش اور مولانا آزاد جیسے لوگوں کے ذریعہ زندگی گزارنے کا طریقہ بھی جمہوری اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ ملک کی ثقافت کو جمہوری اقدار کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔
اس وقت مندر سے متعلق تہواروں کا جو سلسلہ چل رہا ہے، اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ترکِ نوآبادیات ہے! ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ابوظہبی میں جس مندر کا افتتاح کیا گیا ہے وہ مغربی ایشیا کے ’’مسلم ممالک‘‘ میں پہلا ہندو مندر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات، مسقط، بحرین، عمان وغیرہ میں پہلے ہی بہت سے مندر موجود ہیں۔ معاشی وجوہات کی وجہ سے ہندوستانی ان ممالک میں جاتے رہے ہیں اور اس کے ساتھ وہاں مندر بھی بن رہے ہیں۔ ہمارے ارد گرد بہت سے مسلم ممالک میں بہت سے مندر ہیں۔ بنگلہ دیش کا ڈھکیشوری مندر کافی مشہور ہے۔ پاکستان میں بھی بہت سے مندر ہیں اور لال کرشن اڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور تزئین و آرائش شدہ کٹاسراج مندر کا افتتاح کیا تھا۔
ہندو مندروں کی تعمیر کے لیے مودی کی قصیدہ خوانی کرنا درست نہیں۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ ہندوستان اور ابوظہبی میں مندروں کا افتتاح کرکے مودی نے ہندوستان کے ترک ِ نوآبادیات کے تئیں اپنا عزم ظاہر کیا ہے۔ تحریک آزادی نے ہندوستان میں نوآبادیاتی حکمرانی کے اثر کو ختم کرنے کا کام کیا۔ قومی تحریک کے ساتھ ترقی پسند سماجی قدم اٹھائے گئے، ترقی پسند تحریریں ہوئیں اور ترقی پسند تھیٹر پروان چڑھا۔ یہ سلسلہ آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔ جہاں نہرو نے سائنسی نظریہ کو فروغ دیا، امبیڈکر نے جدید اقدار پر مبنی ایک آئین بنایا۔
ویسے بھی ہندوستان کبھی بھی پوری طرح سے نوآبادیاتی ثقافت میں غرق نہیں ہوا۔ آج ہندوستان میں مذہبیت اور دقیانوسیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ سیاست نے مذہب کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ہماری ثقافت کو قدامت پسندی اور کٹر اقدار سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال وی ایچ پی نے ببر شیر اکبر اور شیرنی سیتا کو ایک ساتھ رکھنے کے محکمہ جنگلات کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔
جہاں تک ابوظہبی کا تعلق ہے، متحدہ عرب امارات سمیت پورا مغربی ایشیا اسلامی بنیاد پرستی سے نکلنے والی قدامت پسند اقدار کی گرفت میں ہے۔ اس اسلامی بنیاد پرستی کی امریکہ نے حوصلہ افزائی کی کیونکہ وہ اس خطے کے خام تیل کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے 1953 میں ایران کی جمہوری طور پر منتخب مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد وہاں بنیاد پرست حکومتیں قائم ہوئیں۔ بعد میں امریکہ نے مجاہدین کی تربیت کے لیے پاکستان میں مدارس قائم کیے۔ اس نے القاعدہ کو پیسے اور اسلحہ فراہم کیا۔ امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے مغربی ایشیا کا کلچر رجعت پسند ہو گیا۔ ابوظہبی میں مندر کا افتتاح تیل کی بھوکی طاقتوں کے ذریعہ مغربی ایشیا کی ثقافت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی نہیں کرسکتا۔
منادر ثقافت کا حصہ ہوتے ہیں۔ صرف مندروں میں آرتی کرنے سے ثقافت نہیں بدلتی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰