حمید عادل
شیکسپیئر نے کہا تھا ’’ نام میں کیا رکھا ہے؟ایک گلاب کو کوئی سا نام بھی دے دیں، وہ گلاب کا پھول ہی رہے گا، اس کی خوشبو اور رنگ روپ بدلے گا نہیں۔ جب کہ معروف شاعر گلزارنے فلم ’’ کنارہ‘‘ میں کہا تھا ’’ نام گم جائے گا ، چہرہ یہ بدل جائے گا، میری آواز ہی پہچان ہے ،گر یاد رہے ‘‘لیکن ہمارے معزز وزیراعظم صرف اور صرف نام کو اہمیت دیتے ہیں، انہوں نے گزشتہ نودس سال کے دوران نئے نئے ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں،کوئی بڑا تعمیری کام ہو یا پھر کسی نئی ٹرین کا افتتاح،بروقت پہنچ جاتے ہیں اور خوشی خوشی ہری جھنڈی لہراتے ہیں….یہ نام کا چکر نہیں تو اور کیا ہے کہ دلی میں ’’جی ٹوئنٹی ‘‘ اجلاس کے تحت ہمارے آپ کے چہیتے مودی جی ’’ مجھ کو دیکھو گے جہاں تک، مجھ کو پاؤگے وہاں تک،اس زمیں سے آسماں تک ، میں ہی میں ہوں ، میں ہی میں ہوں ، دوسرا کوئی نہیں …‘‘کی طرز پر جہاں بھی دیکھیے مودی ہی مودی، نظر آرہے ہیں… وہ دنیا کے مختلف ممالک سے شرکت کرنے والے سربراہوں کی کم از کم ایک آدھ تصویر ہی لگوا دیتے لیکن وہ ایسا کریں گے کیوں ؟مودی جی تو وہ ہیں جو کیمرے اور ان کے درمیان حائل ہونے والے شخص کا ہاتھ پکڑ کر بازو کردیتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی معزز کیوں نہ ہو …دلی میں ہر سو مودی کے پوسٹرس کے پس منظر میںمعروف صحافی رویش کمار نے خوب طنز کیا ہے:
’’دلی کا جائزہ لینے ہم نکلے تو ہمیں کہیں بھی دنیا بھر سے آرہے ہیں مہمانوں کے پوسٹرس نظر نہیں آرہے ہیں ، بس اسٹانڈ میں لگنے والے اشتہارات میں بھی وزیراعظم مودی ہیں ، جی ٹونئٹی کا پیام ہے ، ہورڈنگ پر بھی مووی ہیں ، بجلی کے کھمبوں پر بھی مودی ہیں، یہاں تک کہ پرگتی میدان پر بھی صرف اور صرف وزیراعظم مودی ہیں ۔ کئی جگہوں پر جی ٹو ئنٹی میں شرکت کرنے والے ممالک کے جھنڈے لگے ہیں لیکن پوسٹرس میں صرف مودی ہیں ۔وہی اکیلے نظر آتے ہیں ، آپ اتنی بار وزیراعظم مودی کاپوسٹر دیکھتے ہیں کہ لگتا ہے یہ جی ٹوئنٹی نہیں مودی ٹونٹی ہے ۔ اس اجلاس میں مہمان بھی مودی ہیں ، میزبان بھی مودی ہیں ، مودی ہی فرانس سے آرہے ہیں ، مودی ہی جاپان سے آرہے ہیں ، مودی ہی امریکہ سے آرہے ہیں ، مودی ہی مصر سے آرہے ہیں ، مودی ہی آرہے ہیں ، مودی ہی، مودی کا سواگت کررہے ہیں …بھارت نے ایک نعرہ دیا ہے ’’ دنیا ایک پریوار ‘‘ مگردیگر افراد خاندان کا نام و نشان تک نہیں ہے ۔ان پوسٹرس کو دیکھ کر لگتا ہے ’’ وشوو پریوار‘‘ میں صرف ایک ہی شخص ہے اور وہی اکلوتا مکھیا ہے …‘‘
دوستو!وزیراعظم ایسے ہی ’’ وشوو گرو‘‘ نہیں بنے ہیں ، ذرا سوچیے !گھر میں بیٹھے بیٹھے کوئی کیسے وشوو گرو بن سکتا ہے بھلا؟ وشوو گرو بننے کے لیے مودی جی نے پہلے تو بے تکان مختلف ممالک کے دورے کیے ،تبھی تو ساری دنیا کو معلوم ہوا کہ ’’ انڈیا‘‘ اوہو…زبان پھسل گئی …’’ بھارت نام کا کوئی دیش بھی ہے… …ہم یہ لکھنا بھول گئے کہ اب ہم سب کو ’’ بھارت ‘‘ کہنا ہوگا … جب اتر پردیش کے وزیراعلیٰ ریاست کے ایک کے بعد دیگرے شہروں کے نام بدل سکتے ہیں تو مودی جی ملک کا نام صرف اور صرف ’’ بھارت ‘‘ کیوں نہیں رکھ سکتے ؟چنانچہ انہوں نے ’’ بھارت‘‘ کا شگوفہ چھوڑا ہے جس سے متاثر ہوکر اکشے کمار نے وزیراعظم سے اپنی محبت اجاگر کرنے کے لیے اپنی آنے والی فلم کا نام بدل دیا ہے … جی ہاں!’Mission Raniganj: The Great Indian Rescue.’ ، ‘Mission Raniganj: The Great Bharat Rescue.’بن چکی ہے …اگر آج مسٹر انڈیا ریلیز ہونے والی ہوتی تو اس کا نام ’’ مسٹر بھارت ‘‘ رکھ بھی دیا جاتا تو یہ اعتراض ضرورہوتا کہ ’’ مسٹر‘‘ انگریزی لفظ ہے ،لہٰذا’’ بھارت ‘‘ کے ساتھ’’ مسٹر‘‘ نہیں ’’ شریمان‘‘ ہونا چاہیے اور پھر فلم ’’مسٹر انڈیا‘‘، دیکھتے ہی دیکھتے ’’ شریمان بھارت‘‘ بن جاتی…اس نام سے فلم چل پاتی یا نہیں، یہ الگ بحث ہے لیکن ’’مسٹر انڈیا‘‘دیکھتے ہوئے ہم نے یہ کہاں سوچا تھا کہ ’’ مسٹر انڈیا‘‘کا کردارجس طرح فلم میں غائب ہوتا ہے ،ٹھیک اسی طرح ’’انڈیا‘‘ غائب ہو جائے گا …آج وہ خوبصورت فلمی نغمہ بے معنی ہوکر رہ جاتا جس کے بول ہیں ’’ یہ دنیا ایک دلہن، دلہن کے ماتھے کی بندیا، یہ میرا انڈیا، آئی لو مائی انڈیا‘‘
نام بدلنا کوئی نئی بات نہیں ہے،بادشاہوں، شاعروں اور فلمی اداکاروں نے موقع کی مناسبت سے اپنے نام بدلے ہیں…حتیٰ کہملکوں نے تک نام بدلے ہیں، حال ہی میں ترکی ’’ ترکیہ‘‘ بن گیا، اس سے پہلے برما ’’ مائنمار‘‘ ہوگیاتھا…جہاں تک شخصیتوں کی بات ہے، ایک وقت تھا ’’مرزا ‘‘کا تخلص ’’اسد‘‘ تھا، جب کسی نے نام کا سرقہ کیا تو انہوں نے غالب اختیار کرلیا…پڑوسی ملک کے شریف وزیراعظم جب وہ ریاست کے وزیراعلیٰ تھے، انہوں نے اپنے لئے وزیراعلیٰ کے ٹائٹل کی بجائے ’’خادم اعلیٰ‘‘ تجویز کیا تھا۔ جب ان کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ’’ محترم! خادم کبھی اعلیٰ نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا خدمت گار نہیں گزرا جس کے جلو میں لشکر و سپاہ ہوں اور جو سینکڑوں کمانڈوز کی معیت میں بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتا ہو …‘‘ تو انہوں نے نام کی تصحیح کرتے ہوئے’’ خادم پنجاب‘‘ رکھ دیا…جب انتخابات میں کامیابی نصیب ہوئی تو اس کامیابی کا ایسا سرور ان پر چھایا کہ نعرہ مار بیٹھے ’’ آج سے نوکر پنجاب ہوں۔‘‘ کسی نے مشورہ دیا ’’ محترم! اب اتنا بھی نیچے نہ جائیں کہ مبالغہ لگے… ‘‘چنانچہ آخری ٹائٹل کو کڑوے گھونٹ کی طرح پی گئے…ہمارے وزیراعظم بھی کسی سے کچھ کم نہیں ہیں،انہوںنے پہلے خود کو چوکیدار کا نام دیا پھر کہا ’’ ہم تو فقیر آدمی ہیں، جھولا اٹھا کے چلے جائیں گے۔‘‘ اُس وقت جانے کتنے دل جلوں نے یہ دعا کی ہو گی کہ ایسی چوکیداری ہم کوبھی ملے یا یہ کہ ایسی فقیری ہمیں بھی نصیب ہو …
آج کی بات نہیں ہے،زمانہ قدیم سے آدمی اپنا نام کچھ بھی رکھتا رہا ہے …اس تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمائیں ،کہتے ہیں کہ ایک اندھی عورت گرفتار ہو کر بادشاہ تیمور کے سامنے آئی۔ تیمور نے نام پوچھا تو بولی ’’دولت۔‘‘ تیمور نے طنز کیا کہ’ ’اچھا!آج پتا چلا کہ دولت اندھی ہوتی ہے!‘‘ دروغ بر گردنِ راوی خاتون نے برجستہ کہا:’’اگر اندھی نہ ہوتی تو لنگڑے کے پاس کیوں کر آتی؟‘‘
بات صرف اس خاتون کی نہیں ہے ،آج ہمیں ایسے کئی چہرے نظر آجاتے ہیں ، جن کے نہایت بے ڈھنگے اور بے مطلب نام ہوتے ہیں …مشکل اور منفرد نام رکھنے کا الگ سے لوگوں پر خبط سوار ہے … اور اس چکر میںکچھ کو اپنا نام تک درست تلفظ کے ساتھ ادا کرنا نہیں آتا تو کسی کواپنا ہی نام لکھنا نہیں آتا اور کسی کو اپنے نام کے معنی تک نہیں معلوم …کچھ نام تو ایسے بھی ظاہر ہونے لگے ہیں کہ جنہیں سن کر یا پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا خاصا دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ محترم ہیں یا محترمہ …نام ، نام ہوتا ہے لیکن نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں کسی شخص یا کسی شئے کا ایک مبہم سا خاکہ ابھر آتا ہے …مشکل نام رکھنا کمال نہیں کمال تو یہ ہے کہ ہم مشکل کام کر جائیں…جب ہم کوئی مشکل کام کرجائیں تو نام خود بخود ہوہی جاتا ہے … نام جتنا عام فہم ، آسان ، پرکشش اور واضح ہوگا، اتنا اچھا اور فائدہ مند ثابت ہوتا ہے …
ملک کا نام صرف اور صرف ’’ بھارت ‘‘ کرنا آسان نہیں ہے ،حکومت سے جڑے تمام شعبہ جات میں انڈیا کی بجائے بھارت کرنا ہوگا، اقوامتحدہ میں ہندوستان کی پہچان ’’ انڈیا‘‘ سے ہے وہاں بھی اسے بدلنا ہوگا…ماہرین کے مطابق اس کے لیے ہزاروں کروڑ روپئے خرچ ہوجائیں گے…جب کہ آئین کا آرٹیکل 1 ان دونوں ناموں کو ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کرتا ہے: ’’انڈیا‘‘، یعنی ’’بھارت‘‘، ریاستوں کا اتحاد ہوگا۔‘‘ نام کی تبدیلی کے لیے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی، ایک خصوصی بل پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوگا اور دو تہائی اکثریت سے اسے کامیاب کروانا ہوگاجب کہ راجیہ سبھا میں بی جے پی حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیںہے …فی زمانہ عوام مختلف مسائل سے نبرد آزما ہیں، بیروزگاری، مہنگائی اور غربت نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے …ایسے میں ’’انڈیا‘‘ کو ہٹانے کی ضد ملک و قوم کے لیے گھاٹے کا سودا ہی کہا جاسکتا ہے لیکن مودی ہیں توممکن ہے …آج تک انہوں نے گھاٹے کے سودے ہی توکیے ہیں …
کتنی عجیب بات ہے کہجیسے ہی اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اتحاد کا نام ’’ انڈیا‘‘ رکھا، بی جے پی کے لیے ’’ انڈیا‘‘ انگریزوں کی گالی بن گیا…مودی جی کو یہ احساس غالباً شدت سے ستانے لگا کہ جب جب وہ انڈیا کہیں گے ، انہیں محسوس ہوگا وہ اپوزیشن اتحاد ’’ انڈیا‘‘ کا نام لے رہے ہیں …لہٰذا نہ رہے بانس نہ بجے بانسری…انڈونیشیا سے دعوت نامہ آیا ہے جس میں ’’ پرائم منسٹر آف بھارت‘‘ لکھا ہے…ایک معروف صحافی کا گمان ہے کہ مودی جی نے یقینا فون کرکے بتایا ہوگا کہ’’ اب جو دعوت نامہ بھیجنا اس میں انڈیا نہیں بھارت لکھنا ، انڈیا اب صرف اپوزیشن اتحاد کا نام ہے ، اگر انڈیا لکھو گے تو 28جماعتوں والا اتحاد انڈونیشیا پہنچ جائے گا تو پریشانی آپ ہی کو ہوگی … ‘‘ البتہ وزیراعظمکے ماضی کے ٹوئٹس پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے بھارت سے پہلے ’’ انڈیا‘‘ لکھا ہے۔جب کہ یہ انگریزو ں کا دیا ہوا نام بھی نہیں ہے ،ماہرین کے مطابق سندھو ندی کو لاطینی زبان میں ’’ انڈیس‘‘ کہا جاتا رہا ہے …چنانچہ یونان کے تاریخ داں ہیروٹس نے 440قبل مسیح میں ترکی اور ہندوستان کا تقابل کرتے ہوئے’’ انڈیا‘‘ لفظ کا پہلی بار استعمال کیا تھا۔
’’ بھارت ‘‘ سے ’’ انڈیا‘‘ جڑا رہے گا یا نہیں ! یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن چمن بیگ بتا رہے تھے کہ اب ’’ انڈیا‘‘ کہنے والے کی خیر نہیں ہوگی، بطور خاص کرکٹ شائقین کو اب بہت چوکنا رہنا پڑے گا، کیوں کہ وہ اب اپنے ملک بھارت کو ’’ انڈیا‘‘ کہنے کی کڑی سزا پا سکتے ہیں ..کل تک بہت کہہ لیا ’’کم آن انڈیا ‘‘دوسری طرف چمن کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ انڈیا بھارت کے چکر میں مودی جی پھر ایک بارنوٹ بندی کا اعلان نہ کردیں … کیوں کہ کرنسی پر ریزرو بینک آف ’’انڈیا‘‘ لکھا ہوتا ہے …اب یہ الگ بات ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا اور انڈین ریلوے جیسے کئی ناموں میں پہلے سے ہی ہندی شکلیں ہیں جن میں ’’بھارتیہ‘‘ ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰