امریکہ و کینیڈاسوشیل میڈیا

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پینٹنگ دکھانے پر پروفیسر ملازمت سے محروم

ہیم لائن یونیورسٹی کی ایک منسلک پروفیسر ایریکا لوپیز پریٹر نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ بیشتر مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کشی نہ کی جائے۔

منی سوٹا (امریکہ) : ہیم لائن یونیورسٹی کی ایک منسلک پروفیسر ایریکا لوپیز پریٹر نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ بیشتر مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کشی نہ کی جائے۔

اسی لیے عالمی آرٹ ہسٹری کلاس کے آخری سمسٹر میں اُس نے بانی اسلام کی چودہویں صدی کی ایک پینٹنگ دکھانے سے پہلے بے حد احتیاط برتی۔

اُس نے پیشگی انتباہ دیا کہ اِس کورس کے نصاب میں مقدس ہستیوں بشمول پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بدھا کی تصویریں دکھائی جائیں گی۔ اس نے طلبہ سے کہا کہ اگر انھیں کوئی اعتراض ہے تو وہ اس سے رابطہ کریں۔ پروفیسر نے بتایا کہ کسی نے ایسا نہیں کیا۔

اُس نے کلاس میں طلبہ کو یہ بتاتے ہوئے تیار کیا کہ چند ہی منٹوں میں پینٹنگس دکھائی جائیں گی، اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو جاسکتا ہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر لوپیز پریٹر نے تصویر دکھائی اور اپنی تدریسی ملازمت سے محروم ہوگئی۔

منی سوٹا کے سینٹ پال میں ہیم لائن ایک چھوٹی سی خانگی یونیورسٹی ہے، جس میں تقریباً 1800 انڈر گریجویٹ زیرتعلیم ہیں۔ یونیورسٹی کے عہدیداروں نے اِس آگ کو بجھانے کی کوشش کی، جس کے بارے میں انھیں اندیشہ تھا کہ یہ بھڑک اٹھے گی۔ تاہم یہ آگ بجھنے کے بجائے مزید بھڑک اٹھی۔

ایک قومی تنازعہ پیدا ہوگیا، جس میں علمی آزادی اور آزاد اظہار کے حامیوں نے مسلمانوں کی مخالفت شروع کردی، جن کا یہ ماننا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر دکھانا ہمیشہ توہین آمیز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر لوپیز پریٹر کی جانب سے تصویر دکھائے جانے کے بعد ایک سینئر طالب ِ علم نے انتظامیہ سے شکایت کی۔

کورس میں شامل دیگر مسلم طلبہ نے طالب ِ علم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کلاس اُن کے مذہب پر حملہ ہے، لہٰذا انھوں نے حکام سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکام نے ڈاکٹر لوپیز پریٹر کو بتایا کہ اگلے سمسٹر سے ان کی خدمات کی ضرورت نہیں۔

انھوں نے طلبہ اور فیکلٹی کو ای میل روانہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ واضح طور پر اسلامو فوبک تھا۔ ہیم لائن کے صدر فائنیس ایس ملر نے ایک ای میل پر دستخط کیے، جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان طلبہ کے احترام کے لیے تعلیمی آزادی کو ختم کرنا چاہیے تھا۔

ٹاؤن ہال میں مدعو ایک مسلمان مقرر نے تصاویر دکھانے کا موازنہ یہ سکھانے سے کیا کہ ہٹلر اچھا آدمی تھا۔ آزاد اظہار کے حامیوں نے اپنی مہم شروع کی۔ اسلامی آرٹ کے ایک مؤرّخ نے ڈاکٹر لوپیز پریٹر کا دفاع کرتے ہوئے ایک مضمون تحریر کیا اور یونیورسٹی کے بورڈ سے معاملہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک پٹیشن شروع کی۔

اس پر 2800 سے زائد افراد نے دستخط کیے۔ آزاد تقریر گروپس اور PEN اشاعتوں نے چھلکتی تنقیدیں جاری کیں۔ امریکہ نے اسے حالیہ عرصہ میں تعلیمی آزادی کی سب سے سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور خود مسلمانوں نے بحث کی کہ آیا یہ عمل اسلامو فوبک تھا۔