مضامین

ڈونالڈ ٹرمپ قانون کی گرفت میں

جاوید محمود

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں کپڑے کی تجارت تھی اور اسی سے گزر اوقات تھا۔ جب خلیفہ بنائے گئے تو حسب معمول صبح کو چادریں ہاتھ پر ڈال کر بازار میں فروخت کے لیے تشریف لے چلے۔ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔ پوچھا کہاں چلے؟ فرمایا کہ بازار جارہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اگر آپ تجارت میں مشغول ہوگئے تو خلافت کے کام کا کیا ہوگا۔ آپ ؓ نے فرمایا کہ پھر اہل و عیال کو کہاں سے کھلاﺅں؟ عرض کیا کہ ابوعبیدہ ؓ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے امین ہونے کا لقب دیا ہے۔ ان کے پاس چلیں وہ آپ کے لیے بیت المال سے کچھ رقم مقرر کردیں گے تو انہوں نے اتنا وظیفہ مقرر فرمادیا جو اوسطاً درمیانہ تھا نہ کم نہ زیادہ۔ اس مثال سے ثابت ہوا کہ اسلام نے ملک کے سربراہ کو بزنس کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے ثابت قدم رہنا ایک بڑا امتحان ہوتا ہے۔ یہی وجہ کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے سربراہوں کے حوالے سے بڑی تعداد میں کرپشن اور خزانے کو اپنے ذاتی ا ستعمال میں لینے پر مبنی خبریں اور رپورٹس منظرعام پرآچکی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن اور مالی لوٹ کھسوٹ کے جراثیم اب ترقی یافتہ ممالک کے سربراہوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب دنیا کی واحد سوپر پاور امریکہ کے سربراہ سابق صدر کے حوالے سے کرپشن کی ایسی رپورٹس منظرعام پر آئی ہیں جس نے امریکہ کی ساکھ کو عالمی سطح پر متاثر کیا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو تاریخ دانوں کے ایک گروپ نے تمام امریکی صدور میں سب سے نیچے کا درجہ دیا ہے۔ جو پچھلے 150 سالوں میں وائٹ ہاﺅس میں خدمات انجام دینے والے کسی بھی کمانڈر ان چیف کی قیادت کے لیے سب سے کم درجہ ہے۔ ٹرمپ بالکل ترقی یافتہ ممالک کے سربراہوں کی طرح صدر کاعہدہ سنبھالنے کے بعد پوری دنیا اور امریکہ میں بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے کاروبار کو صدارتی ڈھال سے سنبھالا۔ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ ”میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کاروبار بچوں کے حوالے کردوں گا۔“ اس کی بجائے ٹرمپ نے سابقہ صدور کی طرف سے مقرر کردہ تمام قسم کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جس کا آغاز اپنے عہدہ پر رہتے ہوئے اپنے کاروباری مفادات سے دستبردار نہ ہونے کے فیصلے سے خود غرضی اور منافع خوری کو رکھ کر ایسی انتظامیہ بننے کے لیے اسٹیج کو ترتیب دیا۔ صدر کے طور پر اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ہوٹلوں اور گولف کورسس دوروں کے ذریعہ اپنے منافع میں اضافہ کیا۔ انتھک فروغ اس کی جائیدادوں کا، اور ٹرمپ آرگنائزیشن او رحکومت کے درمیان ان گنت دیگر معاملات اور جائیدادوں کو اپنے پاس رکھ کر ٹرمپ نے کارپوریٹ لابیسٹ، غیر ملکی اداکاروں، خصوصی مفادات اور کسی دوسرے کو اپنی انتظامیہ تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ فراہم کیا جو سیاسی تسلط کی تلاش میں تھا۔ ٹرمپ نے صدارت کو کاروبار کے لیے کھول دیا اور چار سال تک اثر و رسوخ فروخت کے لیے رہا۔ چار سال اور 3700 سے زائد مفادات کے تنازعات کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ ٹرمپ نے ہر موڑ پر صدارت کو استعمال کرنے کی کوشش کی تا کہ وہ اپنی پھیلی ہوئی کاروباری سلطنت کو مزید پھیلاسکیں۔ صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ وہ بطور صدر اپنے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ انہوں نے فروری2017کے پہلے ہفتے میں مار۔ اے۔ لاگو کا سفر کرتے ہوئے ایک دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوئٹزرلینڈ ، ہنگری، افغانستان، اٹلی کے سفیر ڈنمارک، پیرو، کولمبیا اور سویڈن ‘ صدر ٹرمپ نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے547 مرتبہ ان جائیدادوں کا دورہ کیا۔ مار۔اے۔لاگو کے 145 دورے کیے۔ گولف کورسز کے 328 اور واشنگٹن میں ٹرمپ ہوٹل کے 33اور وہ اکثر دوسرے اعلیٰ سرکاری افسروں کو اپنے ساتھ لاتے۔ اپنی انتظامیہ او ران لوگوں کو جو ان کے ساتھ احسان کرنا چاہتے ، ان کی جائیداد ان کے کاروبار کے لیے کھلی رہتیں۔ ٹرمپ نے وہاں سرکاری کاروبار کرکے اپنی جائیدادوں کو فروغ دیا۔ انہوں نے ٹرمپ ٹاور میں پریس کانفرنس کی۔ اپنے بیڈ منسٹر ریزورٹ میں چار ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے اور ما۔اے۔لاگو میں 8سربراہان مملکت کی میزبانی کی۔ ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں کوئی مثالی کام نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کا انتخاب کیا۔ ٹرمپ اکیلے نہیں تھے۔ 346 ایگزیٹیو برانچ کے اہلکاروں نے ٹرمپ کی مدت کے دوران ٹرمپ کی جائیدادوں کے 993 دورے کیے۔ اکثر صدر کے ڈسی ہوٹل کی سرپرستی کرتے تھے۔ ایوانکا ٹرمپ اور جیرڈ کشنر نے بالترتیب78 اور 55 ٹرمپ کی جائیدادوں کا سب سے زیادہ دورے کیے۔ نائب صدر پینس نے دفتر میں رہتے ہوئے33بار ٹرمپ کے کاروبار کاد ورہ کیا جس میںان کے ڈی سی ہوٹل میں 22بار جانا بھی شامل ہے۔ امریکی مشہور میگزین فوربس کی طرف سے کیے گئے دستاویزات کے تجزیے کے مطابق سابق صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس میں اپنے دور کے دوران 4.2 ملین ڈالر کا کاروبار ہوا۔ فوربس نے دیگر دستاویزات کے علاوہ جائیداد کے ریکارڈ، اخلاقیات اورقرض اور سیکورٹیز فائلنگ کا جائزہ لیا تا کہ معلوم کیا جاسکے کے سابق صدر کے کاروبار نے جنوری 2017 سے دسمبر2020 کے درمیان کتنی رقم کمائی۔ یہ حقیقت ہے کہ اقتدار کا نشہ اندھا کردیتا ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں نے 6 جنوری 2021کو جو بائیڈن کی انتخابی فتح کی تصدیق کو ناکام بنانے کی کوشش کی، کانگریس پر دھاوا بول دیا، ٹرمپ نے اقتدار کی پُرامن منتقلی کو روکنے کی سازش کی تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں اس نوعیت کی انارکی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ٹرمپ کی تقریر کے بعد جس میں انہوں نے اپنے حامیوں کو واضح ک ہا کہ وہ کانگریس بلڈنگ پر پہنچ کر احتجاج کریں ، ٹرمپ انتخابات میں ہونے والی شکست کو تسلیم کررہے تھے۔ اصل میں ان کا ہمیشہ سے کاروباری ذہن رہا ہے۔ اقتدار میں رہتے ہوئے اس کاروبار کو جو بڑے پیمانے پر پھیل گیا تھا وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ کیپٹل ہل پر حملے کے نتیجہ میں 5پولیس والے ہلاک اور سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کی ذمہ داری ٹرمپ پر ڈالی گئی ہے اور اس کی تحقیقات جاری ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں کھل کر کاروبار کیا اور امریکہ کو اپنی آرگنائزیشن سمجھا۔ اب قانون حرکت میں آیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ قانون کی گرفت میں کس حد تک آتے ہیں ۔ٹرمپ نے اب تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی۔ اس سے پہلے امریکہ میں یہ نہیں ہوا۔ اسلام حکمراں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دیتا تاکہ وہ اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کرسکے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا شمار امیر ترین لوگوں میں کیا جاتا ہے۔ سروے رپورٹس کے مطابق ان کا شمار ناکام صدر میں کیا جاتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ایک بار پھر امریکہ کے صدر بننے کے لیے مہم چلارہے تھے۔ بظاہر لگتا ہے کہ اب ان کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر دو روز قبل چند مقدمات قائم کیے گئے ہیں جس میں رئیل اسٹیٹ، قرضوں اور دیگر مالیاتی انتظامات کے بارے میں بہت سی تفصیل ہے جس کے بارے میں نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز نے الزام لگایا ہے کہ وہ برسوں پر محیط وسیع پیمانے پر دھوکہ دہی کے معاملات میں ملوث تھے۔ جیمز کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ اور ان کی کمپنی، ٹرمپ آرگنائزیشن نے قرضوں اور انشورنس پر بہتر شرائط حاصل کرنے او راپنے ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے کمپنی کی ملکیتی جائیدادوں کی قیمتوں میں دھوکہ دہی کی۔ سول سوٹ کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں، جن میں ٹرمپ کا نام ہے لیکن ان کے تین سب سے بڑے بچے ٹرمپ آرگنائزیشن اور کمپنی کے دو ایگزیکٹوز بطور مدعا علیہ ہیں۔ 2011 اور 2021 کے درمیان ٹرمپ کے مالیاتی حالات کے سالانہ بیانات جن میں ان کی مجموعی مالیت کو بیان کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا، دھوکہ دہی اور گمراہ کن تھے،جیمز کے مطابق ان کی مجموعی مالت کو ہر سال اربوں ڈالرز تک بڑھاتے ہیں۔ بیانات میں جائیدادوں اور دیگر اثاثوں کی قیمتیں شامل تھیں جو مبینہ طور پر دھوکہ دہی اور گمراہ کن تھیں۔
پام بیچ فلوریڈا میں مار۔اے۔لاگو کلب: اس پراپرٹی کی قیمت 739 ملین ڈالر تھی جو جھوٹی بنیاد پر کہ یہ غیر محدود جائیداد ہے اور اسے رہائشی استعمال کے لیے تیار اور فروخت کیا جاسکتا۔ حالانکہ ٹرمپ نے خود دستخط کیے تھے۔ اپنے رہائشی ترقی کے حصول کو عطیہ کرنا، جائیداد میں تبدیلیوں پر تیزی سے پابندی لگانا اور جائیداد کے جائز استعمال کو سوشل کلب تک محدود کرنا، جیمز نے کہا حقیقت میں کلب نے 25ملین سے کم آمدنی پیدا کی اور اس کی قیمت75ملین کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ سیون اسپرنگس، ویب چیسٹر کاﺅنٹی نیویارک،212 ایکڑ پر محیط جائیداد جسے ٹرمپ نے 1995 میں 75 ملین ڈالرز میں خریدا تھا، اس کی پچھلی دہائی میں 291 ملین ڈالر تک تھی۔ اس دعوے کی بنیاد پر کہ پراپرٹی میں 9حویلیوں کے لیے زوننگ ہے جو فروخت کی جاسکتی ہے، 161 ملین ڈالر سے زیادہ کے منافع کے لیے اٹارنی جنرل جیمز نے کہاکہ یہ اقدار ایک افسانہ تھیں۔ جو پراپرٹی کی ترقی کی تاریخ سے مکمل طور پر غیر تعاون یافتہ ہیں اور جائیداد پر کی جانے والی ہر پیشہ ورانہ تشخیص سے متصادم ہیں۔ ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اینڈ ٹاور شکاگو: اس پراپرٹی کی قیمت ٹرمپ کے بیانات میں 2009ءسے شامل نہیں کی گئی ہے، کیوںکہ حلفیہ گواہی کے مطابق ڈونالڈٹرمپ ایسی پوزیشن نہیں لینا چاہتے تھے جو ٹیکس حکام کے سامنے ان کے دعوے سے متصادم ہو،جائیداد بیکار ہوچکی تھی اور اس طرح وفاقی ٹیکس کو ڈ کے تحت کافی نقصان کی بنیاد بنی، جیمز نے کہا کہ 2012 میں ٹرمپ او ران کی کمپنی نے عمارت یا اس کے اجزاءکو بطور ضمانت استعمال کرتے ہوئے ڈوئچے بینک سے جائیداد پر 107 ملین ڈالر کا قرض حاصل کیا۔ جیمز نے کہا کہ قرض میں 2014 میں 45 ملین کی توسیع ہوئی۔