دہلی

ہجومی تشدد اور نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے کیلئے رہنما خطوط کو مضبوط کیا جائے گا : سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ہجومی تشدد‘ نفرت انگیز تقاریر اور ہجومی تشددسے نمٹنے کے لئے اپنے 2018 کے رہنما خطوط کو مضبوط بنائے گی تاکہ عصبیت پھیلاتے ہوئے عوامی اظہار پر قصور واروں کے ساتھ بلا لحاظ وابستگی مساویانہ طور نمٹا جاسکے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ہجومی تشدد‘ نفرت انگیز تقاریر اور ہجومی تشددسے نمٹنے کے لئے اپنے 2018 کے رہنما خطوط کو مضبوط بنائے گی تاکہ عصبیت پھیلاتے ہوئے عوامی اظہار پر قصور واروں کے ساتھ بلا لحاظ وابستگی مساویانہ طور نمٹا جاسکے۔

متعلقہ خبریں
مندروں کے قریب نئی عمارتوں کی بلندی محدود
نیٹ تنازعہ، سی بی آئی تحقیقات سے سپریم کورٹ کا انکار
دہلی میں شیومندر کا انہدام روکنے سے سپریم کورٹ کا انکار
نیٹ امتحان، امیدواروں کے رعایتی نشانات منسوخ، متاثرہ طلبہ کے لئے دوبارہ امتحان (تفصیلی خبر)
اسٹاک مارکٹ کے گرنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا

جہدکار تحسین پونا والاکی درخواست پر اہم فیصلہ میں عدالت عظمیٰ نے 7 /جولائی 2018 ء کو نفرتی جرائم کی روک تھام کے لئے رہنما خطوط جاری کئے تھے اور ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت دی تھی کہ احتیاطی اور انسدادی اقدامات کئے جائیں جیسے اس طرح کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے ہر ضلع میں نوڈل آفیسرس کا تقرر۔ عدالت عظمیٰ نے جمعہ کو مرکز سے کہا کہ اس کے 2018 کے فیصلہ کی تعمیل پر اندرون تین ہفتے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے تفصیلات کا تقابل کرے۔

عدالت نے مرکزی حکومت سے کہا کہ آئندہ سماعت پر تب تک معلومات موصول نہ ہونے پر اس کو مطلع کیا جائے۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ نے وزارت امور داخلہ سے کہا کہ وہ 2018 کے فیصلہ کی مطابعت میں ریاستوں کی جانب سے نوڈل آفیسرس کے تقرر کی تفصیلات بہم پہنچاتے ہوئے ایک مؤقف رپورٹ داخل کرے۔

بنچ نے کہا کہ اس نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کردہ 2018 کے رہنماء خطوط ملاحظہ کی ہے اور اس کی دانست میں مزید چند عوامل کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم ان رہنما خطوط میں مزید اضافہ کریں گے اور کچھ بھی منہا نہیں کریں گے جیسا کہ بنچ نے نشان دہی کی کہ سی سی ٹی وی کیمرے جواس طرح کے جرائم میں ایک باز رکھنے والا عنصر ہوگا‘ حساس مقامات پر نصب کئے جاسکتے ہیں۔

عدالت عظمی متعدد درخواستوں کی یکجا سماعت کررہی ہے جو ریاستوں میں نفرت انگیز تقاریر کے انسداد کی ہدایت دینے بشمول ہریانہ کے نوح اور دہلی سے قریب گروگرام میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی مقاطعہ کی اپیلوں پر کارروائی کی درخواست کرتے ہوئے داخل کی گئیں۔

بنچ نے کہا کہ اس کے پاس مزید دیگر اقدامات بھی ہیں جیسے سادہ لباس میں پولیس عہدیداروں کی تعیناتی جو وقوع پذیر ہر چیز کو ریکارڈ کریں گے اور ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے لئیے یہ ویڈیوز نوڈل آفیسر کو پیش کرنا ہوگا۔ ان نوڈل آفیسرس کو ایک ریکارڈ رکھنا ہوگا اور شکایت چار تا پانچ مرتبہ تک بڑھ جائے تو بلا لحاظ برادری‘ آیفسر رپورٹ ایک کمیٹی کے روبرو پیش کرے اور مابعد ایس ایچ او کو ہدایت دی جائے کہ قانون کی مطابعت میں مقدمہ درج کیا جائے۔

بنچ نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم امن‘ ہم آہنگی اور بھائی چارگی کا غلبہ چاہتے ہیں‘ کہا کہ بعض اوقات مختلف ادعا جات اور جوابی ادعاجات اور آڈیوز اور ویڈیوز ہوتے ہیں‘ ہر ایک کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا درپیش مسئلہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی کی طرف سے نفرت انگیزی کی جاتی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر گشت ہوجاتی ہے اور سب تک پہنچ جاتی ہے۔

جسٹس کھنہ نے کہا کہ چند احتیاطی اقدامات کئے جاسکتے ہیں جیسے جب کبھی فرضی ویڈیوز گشت ہو نوڈل آفیسر اس کے فرضی ہونے کی نشان دہی کرتے ہوئے جوابی ویڈیوز اپ لوڈ کرسکتا ہے۔

ایڈوکیٹ نظام پاشاہ نے درخواست گزار شاہین عبداللہ کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے 21 /اکتوبر 2022 کو ہدایت دی تھی کہ نفرت انگیز تقاریر پر پولیس عہدیدار از خود کارروائی کرے اور مقدمات درج کرے مگر ان احکام پر سختی سے عمل نہیں کیا جارہا ہے۔

a3w
a3w