محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ مسلم عورتوں اور مردوں کے حقوق مساوی ہوں گے۔
٭ طلاق ناممکن ہوجائے گی۔
٭ تقسیمِ ورثہ میں عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق ہوں گے۔
٭ تقسیم ترکہ کے مقدمات کا عدالتوں میں سیلاب آجائے گا۔
22 ویں لاء کمیشن نے ضابطہ کی تکمیل کے لئے عوام الناس ‘ متاثرہ دینی تنظیموں اور دیگر افراد سے یونیفارم سیول کوڈ کے مسودہ پر اپنی رائے کے اظہار کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ اندرونِ مدت 30یوم اپنے اعتراضات پیش کئے جائیں۔ ہر قانون کی تدوین سے پہلے یہ عمل تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ اعتراضات کا مطالعہ کیا گیا ‘ پھر اس کے بعد قانون کا مسودہ لوک سبھا میں پیش کیا جاتا ہے اور مباحث کے بعد ندائی ووٹ سے قانون منظور کرلیا جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا کیوں کہ اس قانون سازی کا وعدہ2014ء اور 2019ء کے انتخابی وعدوں میں کیا گیا تھا جن میں طلاقِ ثلاثہ پر پابندی‘ آرٹیکل370 کی منسوخی‘ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر اور یکساں سیول کوڈ کا نفاذ تھا۔ یہ تمام انتخابی وعدوں میں مسلم ہی متاثر ہونے والے تھے کیوں کہ طلاقِ ثلاثہ ‘ آرٹیکل370 ‘ رام مندر کی تعمیر او ریکساں سیول کوڈ ہی وہ خنجر تھے جو مسلمانوں کے سینوں میں پیوست کئے جانے والے تھے۔ اور آخرِ کار ایسا ہی ہوا۔
اب یہ سوچ کر آگے چلنا ہوگا کہ جلد یا بہ دیر یہ قانون منظور ہوجائے گا۔ قبل از وقت ماتم کی ضرورت نہیں۔ اس آفت کا مقابلہ ہمت و پامردی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے ‘ ورنہ بعد میں بہت دیر ہوجائے گی۔ لیکن اس قانون سازی کا ایک پہلو یہ بھی ہوگا کہ وہ خواتین (بہن۔ ماں) جن کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا تھا ‘ اب اپنے حق کے حصول کے لئے نبردآزما ہوجائیں گی۔ جب کہ اس سے پہلے بارہا لکھا گیا کہ عورت کا حق بمقابلہ مرد نصف ہے‘ اور یہ اللہ تبارک تعالیٰ کا حکم ہے ‘ اس حق کو ادا نہیں کیا گیا‘ اگر منجاب اللہ دیا ہوا حق بہنوں کو ادا کردیا جاتا تو وہ مطمئن ہوجاتیں۔ لیکن اب وہ جب عدالت سے رجوع ہوں گی تو اپنا حق نئے قانون کے مطابق بھائی کے مساوی طلب کریں گی اور عدالت کو ان کا مساوی حق دینے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔
لیکن بہنوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہوگی کہ وہ زعفرانی حکومت کے بنائے ہوئے قانون کو اللہ تبارک تعالیٰ کے قانون کے برابر نہ سمجھیں اور اپنا مطالبہ صرف اپنے شرعی حق کی حد تک رکھیں اور عدالت سے رجوع نہ ہوں۔ اور اس مجبوری کے عالم میں بھائیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بہنوں کو ان کا شرعی حق ادا کردیں۔ ورنہ یہ بات ان کے حق میں اچھی نہیں ہوگی کیوں کہ اگر بہنوئی نے عدالت سے رجوع ہونے کا ارادہ کرلیا تو یہ بات سمجھی جائے گی کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہونے جارہا ہے۔
وقوع پذیر ہونے والی یقینی صورتحال کے پیش نظر اب صاحبِ جائیداد صاحبِ اولاد حضرات کو چاہیے کہ اپنی جائیداد کو اپنی حیات ہی میں ازروئے شرع شریف تقسیم کردیں ۔ تقسیم اس طرح کی ہو کہ بیٹی کو بیٹے کی بہ نسبت نصف حصہ ہے۔ اس ضمن میں ایک دستاویز تیار کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے ان کے بیٹے اور بیٹیاں اپنے عطا کردہ حصہ کے مالک بن جائیں گے اور اس طرح آئندہ ناانصافی کی صورت میں انہیں اپنا حق مل جائے گا۔ جہاں تک ہوسکے احکامِ شریعت کی پابندی کی جائے ۔ اگر ایسا ہو اور ہر حقدار کو اس کا حق مل جائے تو کسی کو بھی عدالت سے رجوع ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بیٹی اگر بیٹے کے برابر حق طلب کرے گی توہ گنہگار ہوگی
قانون نافذ ہونے کے بعد اگر کوئی بہن اپنے بھائی کے مساوی حقِ وراثت طلب کرنے عدالت سے رجوع ہو تو وہ گنہگار ہوگی کیوں کہ اس کا ایسا اقدام اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے نبیؐ کے احکامات کی خلاف ورزی میں ہوگا جس میں سخت عذاب کی وعید ہے۔ بہن اپنے شرعی حق کی حد تک ہی اپنے مطالبہ کو محدود رکھے تو اچھی بات ہوگی۔ اس قانون سازی سے سب سے زیادہ متاثر مسلمانوں کا اصولِ وراثت ہوگا ۔ لہٰذا کچھ ایسی پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ ایسی صورت پیدا نہ ہو جو ہرفردِ خاندان کے لئے تکلیف کا باعث بنے۔
طلاق و خلع کے مسائل عدالت میں طئے ہوں گے
قانون کی منظوری کے بعد طلاق و خلع کے شدید و خطرناک مسائل پیدا ہوں گے۔ ہر عورت اور مرد کو عدالت سے رجوع ہونا پڑے گا۔ عدالت میں مقدمات کی بھرمار ہوگی اور مقصد کے حصول میں کئی سال لگ جائیں گے۔ ایک انار سو بیمار کے مصداق لاکھوں لوگوں کے لئے صرف دو تین عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ فیملی کورٹ ایک میلے کا منظر پیش کرتی ہے اور صبح سے شام تک صرف پیشیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ادھر مقدمات کی یکسوئی نہیں ہوتی تو دوسری جانب روزانہ کئی ایک نئے مقدمات دائر کئے جاتے ہیں۔ طلاق صرف اور صرف عدالت کے حکم سے ہی ہوگی۔ معاشرہ میں اخلاقی برائیاں پھیل جائیں گی خصوصاً ایسی صورت میں کہ ہماری سپریم کورٹ نے دفعہ 497 تعزیرات ہند کو کالعدم قراردے کراسے تعزیرات ہند سے خارج کردیاا۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی شادی شدہ خاتون کسی غیر شخص سے جنسی تعلق قائم کرے تو ایسے قبیح عمل کو جرم کے زمرے سے نکال دیا گیا ہے اور شوہر کو زیرِ دفعہ497تعزیرات ہند کے تحت پولیس میں شکایت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہا۔ گو کہ یہ قبیح عمل کوئی جرم نہیں رہا پھر بھی حصولِ طلاق کے لئے اسے ایک واجبی وجہ قراردیا گیا ہے۔ یہاں مرد کی اس مصیبت کے بارے میں غور کیجئے کہ اس کی بیوی کھلے عام بدچلنی اور آوارگی میں ملوث ہے‘ پھر بھی وہ شکایت نہیں کرسکتا یہ فیصلہ اخلاقی ضابطہ کی خلاف ورزی میں صادر ہوا پھر بھی یہ ایک قانونی حقیقت ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ یہ قانون ایک حقیقت بن کر ابھرے‘ حقیقت پسند بننے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بات محسوس کی جائے کہ اب مل کر رہنا مشکل ہورہا ہے تو دونوں فریقین باعزت طریقے سے بذریعہ خلع علاحدگی اختیار کرلیں تاکہ دونوں کو راحت و سکون حاصل ہو اور دوبارہ زندگی کا آغاز کریں۔ دوسری صورت میں علاحدگی ایک بہت ہی مشکل مسئلہ بن کر ابھرے گی اور اس کا حصول اگر ناممکن نہیں تو بہت ہی مشکل ثابت ہوگا اور زندگی مزید مشکلات میں مبتلا ہوجائے گی۔
لہٰذا قبل از وقت بیدار ہوجانے کی ضرورت ہے کیوں کہ یکساں سیول کوڈ کا قانون نوشتۂ دیوار نظر آتا ہے۔ یہ قانون اسلام و مسلم دشمنی کی بدترین مثال ہے۔
بیٹے کا قرض باپ سے وصول نہیں کیا جاسکتا
پولیس سے رجوع ہونے کی رائے
سوال:- میں ایک رئیل اسٹیٹ تاجر ہوں اور میرے کئی ایک وینچرس حیدرآباد اور حیدرآباد کے باہر ہیں۔ میرا ایک بیٹا غلط صحبت میں مبتلا ہوکر بھاری نقصانات اٹھاچکا ہے۔ وہ بھی ایک بزنس چلاتا تھا اور لوگوں کے پیسوں سے اپنا کاروبار کرتا تھا اور ہر ماہ سرمایہ کاروں کو پانچ فیصد فائدہ ادا کرتا تھا۔ اس نے کروڑوں روپیوں کا قرض لیا اور اسکراپ (تانبہ‘ لوہا‘ پیتل ‘ المونیم) کے بزنس میں لگایا ۔ وہ اسکراپ حیدرآباد سے دہلی اور ممبئی روانہ کرتا تھا۔ لاکھوں کروڑوں روپیوں کا کاروبار تھا۔ کچھ میوات کے تاجروں نے اس سے ربط قائم کیا اور دو تین ماہ تک باہر اچھا کاروبار کرتے رہے۔ پھر ان لوگوں نے اس کوکروڑوں روپیوں کے اسکراپ کا آرڈر دیا اور ساتھ میں کچھ اڈوانس رقم بھی ادا کردی۔ مال حیدرآباد سے دہلی روانہ ہوا اور پتہ نہیں لاریاں کہاں چلی گئیں۔ ڈرائیورس نے کہا کہ مال دہلی میں اترا پھر دوسری لاریوں میں بھر کر کہیں چلاگیا۔ میوات کے لوگوں نے میرے بیٹے کو بہت بڑا دھوکہ دیا ۔ وہ بری عادتوں میں بھی ملوث ہے۔ بیوی۔ بچے ہیں۔ اب گزشتہ تین ماہ سے وہ غائب ہے۔ اس کے پاس پاسپورٹ بھی ہے اور وہ اکثر دوبئی جایا کرتا تھا۔
کچھ دنوں سے سینکڑوں افراد نے ٹیلی فون پر اور کچھ افراد نے شخصی طور پر مجھ سے ملاقات کی اور کہنے لگے کہ آپ کے بیٹے نے ہم سے پانچ فیصد منافع کا وعدہ کرکے ہم سے لاکھوں روپیہ حاصل کئے۔ یہ کئی لوگ ہیں لیکن کسی بھی شخص سے تین لاکھ روپیہ سے زیادہ نہیں لیا اور سب کو چیک دے دیا۔ چیک باؤنس ہوگئے۔ ادھر بیٹا بھی غائب ہے۔ بیوی بچے پریشان ہیں۔ مجھے کچھ علم نہیں کہ کیا ہورہا تھا اور ان لوگوں میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا اور نہ کوئی شخص مجھ سے ملنے آیا۔ ان لوگوں کے مطابق ان لوگوں کو کچھ ماہ تک پانچ فیصد منافع ملتا رہا کاروبار زیادہ سے زیادہ ایک سال بھی نہیں چلا۔ ان لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔ وہ اب مجھ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمارا سرمایہ ادا کردوں۔ ہم نے آپ کی صورت دیکھ کر آپ کے بیٹے کو قرض دیاتھا۔ اب یہ لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ اپنے پلاٹس اور زمینات فروخت کرکے ہمارا پیسہ واپس کرو۔
میں ان لوگوں کے ایک پیسے کا روادار نہیں اور نہ ہی ان کو جانتا ہوں۔
آپ سے رائے مطلوب ہے کہ اس صورت میں کیا اقدام کیا جائے کہ یہ مصیبت ٹل جائے۔ فقط۔
XYZ حیدرآباد
جواب:- ان لالچی لوگوں نے اپنی لالچ کی سزا پائی۔ یہ بیماری حیدرآباد میں عام ہے۔ لوگ ہاتھ پیر میلا کئے بغیر کچھ روپیوں کے زور پر گھر بیٹھے منافع کمانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ لکھا گیا تھا کہ کس طرح حیدرآباد کے نادان لوگ کروڑوں روپیہ E-Store بزنس میں تباہ کربیٹھے ۔ ہمیشہ دھوکہ کھانے کے بعد پھر کیوں دھوکہ کھاتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا۔ بارہا تاکید کی گئی کہ ایسی اسکیمات میں ملوث ہوکر اپنا سرمایہ برباد مت کیجئے لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ نقصان اٹھانے کے بعد کفِ افسوس ملتے ہیں۔
آپ پر آپ کے بیٹے کے کسی بھی عمل کی ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی۔ آپ نہ ضامن ہیں اور نہ ہی گواہ ۔ ان لوگوں کے پاس آپ سے پیسہ طلب کرنے کا اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے۔
اگر یہ لوگ کچھ زیادتی کریں تو پولیس سے شکایت کریں اور ساتھ ہی کم از کم دو اردو اخباروں میں اپنے بیٹے کے کسی بھی عمل سے بے تعلقی کا اعلان شائع کروائیں ۔ اس میں نہ تو کوئی شرم ہے اور نہ ہی مشکل ۔