کرناٹک

ہبالی عیدگاہ گراؤنڈ میں گنیش چتورتھی کی اجازت

جسٹس اشوک ایس کناگی کے چیمبرس میں 10:00 بجے شب سے ہوئی سماعت کے بعد عدالت نے عیدگاہ میدان پر گنیش چتورتھی تہواروں کو روکنے درخواست گزار انجمن اسلام کو عبوری راحت دینے سے انکار کردیا۔

حیدرآباد: دھارواڑ میونسپل کمشنر کی جانب سے چند ہندو تنظیموں کو ہبلی۔دھارواڑ میں عیدگاہ میدان پر گنیش چتورتھی مراسم انجام دینے کی دی گئی اجازت پر حکم التواء جاری کرنے سے کرناٹک ہائی کورٹ نے منگل کی شب انکار کردیا۔

جسٹس اشوک ایس کناگی کے چیمبرس میں 10:00 بجے شب سے ہوئی سماعت کے بعد عدالت نے عیدگاہ میدان پر گنیش چتورتھی تہواروں کو روکنے درخواست گزار انجمن اسلام کو عبوری راحت دینے سے انکار کردیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ متنازعہ جائیداد کی ملکیت دھارواڑ بلدیہ کی ہے اور یہ کہ درخواست گزار پلاٹ کا صرف لائسنس یافتہ ہے جو رمضان اور عیدالضحیٰ کی عیدین کے موقع پر نماز ادا کرنے کا اجازت نامہ رکھتا ہے۔

عدالت نے درخواست گزار کے اس استدلال کو کہ یہ جائیداد، قانون مقامات عبادات 1991 کے تحت احاطہ کردہ ہے، یہ نوٹ کرتے ہوئے مسترد کردیا کہ میدان گاڑیوں کی پارکنگ اور فروخت جیسی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں درخواست گزار کی جانب سے ایسا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا جو ظاہر کرتا ہے کہ جائیداد کو مقام عبادت معلن کیا گیا ہو۔

عدالت نے مزید کہا کہ چمراج پیٹ بنگلور کے عیدگاہ میدان کے بارے میں جوں کا توں مؤقف برقرار رکھنے سپریم کورٹ کے جاری احکام کا اطلاق موجودہ کیس پر نہیں ہوتا ہے چونکہ چمراج پیٹ کیس میں ملکیت کا تنازعہ ہے تاہم موجودہ کیس میں درخواست گزار بلدیہ کی ملکیت سے انکار نہیں کرتا۔

 عدالت العالیہ نے نوٹ کیا کہ اس کیس میں ملکیت کا کوئی تنازعہ نہیں ہے اور اس طرح درخواست گزار کو سپریم کورٹ کے جاری کردہ عبوری احکام کا فائدہ حاصل کرنے کا حق نہیں ہے۔

 بنچ نے تقریباً 11:30 بجے شب دئیے گئے احکام میں کہاکہ”جیسا کہ درخواست گزار کی جانب سے عبوری راحت طلب کی گئی ہے وہ میرٹ کی متقاضی نہیں ہے اور اس کو رد کیا جاتا ہے۔“  میونسپل کمشنر کی جانب سے ہندو تنظیموں کو کل گنیش اتسو کے لئے عیدگاہ میدان پر گنیش مورتیوں کو تنصیب کے لئے دی گئی اجازت کو چالینج کرتے ہوئے درخواست دائر کی گئی۔

 عدالت نے نوٹ کیا کہ کمشنر بلدیہ کا جاری کردہ مذکورہ حکم نامہ کارپوریشن کی کمیٹی کے ایک فیصلہ کی اساس پر ہے۔ اجازت نامہ چند شرائط کے ساتھ گنیش فیسٹیول منانے کی اجازت دی گئی۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ کرناٹک میونسپل کارپوریشنس ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے کمشنر کی جانب سے احکام جاری کئے گئے۔

 اس کیس میں درخواست گزار نے گزارش کی تھی کہ عیدگاہ میدان، قانون مقامات عبادات کے دائرہ میں آتا ہے اور یہ کہ حکام کسی بھی مقام عبادت کی نوعیت کو تبدیل کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل دھیان چنپّا نے میونسپل کمشنر کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے اعتراض کیا کہ درخواست گزار، زمین پر کوئی حق یا مالکانہ حقوق نہیں رکھتا ہے۔

خانگی فریقین کی جانب سے دائر کردہ ایک مقدمہ میں ایک سیول کورٹ کے جاری کردہ احکام کا حوالہ دیتے ہوئے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ عوام، زمین کو استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ سیول کورٹ کے احکام کی توثیق ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ہوچکی ہے۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا ”یہاں ملکیت یا قبضہ پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ وہ صرف رمضان اور بقرعید کے موقع پر دو یوم نماز ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جائیداد خالصتاً کارپوریشن کے زیر قبضہ ہے۔ کارپوریشن اس کو جیسا چاہے ویسا استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے۔

 زیادہ سے زیادہ صرف ایک لائسنس دیا گیا اور کوئی حق نہیں۔ کمشنر نے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ احکام جاری کئے۔“ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ریاستی حکومت نے یہ یقینی بنایا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھا جائے۔ انہوں نے کہا ”گنیش تقاریب پر سختی نہیں کی جانی چاہئے۔

یہ ایک کمیونٹی فنکشن ہے اور ہر ایک کا اس میں خیرمقدم ہے۔ دیگر برادریوں کے ارکان کو بھی یہ یقینی بنایا جانا چاہئے کہ وہ دوسروں کی تقاریب میں مداخلت نہ کریں۔“ درخواست گزار کے وکیل نے درخواست کی کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ یہاں پہلی مرتبہ گنیش فیسٹیول منانے کی تجویز رکھی گئی ہے۔

وکیل نے کہا ”میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ حق یا اختیار نہیں رکھتے۔ یہ ان کی جائیداد ہے مگر اس وقت نہیں۔“ اسسٹنٹ سالیسٹر جنلر ایم بی نارگند نے مدعا پیش کیا کہ سپریم کورٹ کے احکام کو اس کیس میں نظیر نہیں بنایا جاسکتا چونکہ چمراج پیٹ کی زمین پر 200 برسوں سے کچھ بھی نہیں کیا گیا تاہم اس کیس کی زمین پر مارکٹس اور گاڑیوں کی ٹرافک وغیرہ ہیں۔