ظفر عاقل
ایمرجنسی اور اس زمانہ جون 75ء تا مارچ 1977ء کا ملکی ماحول ایک بُرے خواب کی مانندکی دیس اور دیس واسیوںکی جمہوریت نوازی پر اب تک کچوکے لگاتے رہا ہے۔لیکن ایمرجنسی کے کال کی کایا پلٹ ہوچکی ہے اور نئی نسل اس کالے دَور سے نا آشناہی ہے؛تین سے زائد عشرہ برس گئے اور۔۔۔ مابعد کے ماہ وَسال۔۔۔ یقینا جمہوریت کی بقا وَترویج نیز۔۔۔ شخصی آزادی فکر وخیال۔۔۔اورحق اظہار و احتجا ج کے بنیادی انسانی و شہری حقوق کی محافظت و صیانت سے معنون رہے ہیں؛اور اس کو نافذکرنے والی اندراگاندھی اور کانگریس پارٹی اس المیائی سانحہ پرشرمسار ر ہی ہے۔
اظہار و احتجاج کے قدغنی پس منظر ‘ روک ٹوک نیزالزا م وبہتان کی بہتات کے موجودہ ماہ وَسال۔۔۔بلکہ بلڈوزی غیر قانونی روٹھوک ‘ ۔۔۔گائے گوشت کے نام پر قانون کو پاؤں تلے روند کر مآب لنچنگ۔۔۔ اور مسلمانوںکودھرم سنسدوں پر نشانے پر لیے جانا نیز چھری تلوار تیز رکھنے کے اعلانات پر گرفت نہ کرکے کھلی چھوٹ اور ہمت افزائی کا سبب بن جانے کو عار نہ سمجھنادراصل جمہوری عدل وانصاف ہی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کے مغائر ہے۔یہ بھگوائی ماحول‘منظر وَپس منظرکے درمیان( جہاں اور جب اظہار و احتجاج جرم بنا دیا اور سمجھا وَگردانا جائے) ملک کے موجودہ غیر معلنہundeclaredمہلکانہ ماحول کے۔۔۔ تقابلی تناظر میں۔۔۔اندرا کی ایمرجنسی حقیقت میں قابل درگزر گردانی جائے تب کیا یہ غلط ہوگا!؟۔
دنیا بھرمیں جمہوریت اور جمہوری اقدار کی جڑوں سے جڑا یہ ملک انسانی رائے کا احترام‘حقوق انسانی کا عَلم برداروَمحافظ گردانا جاتا رہا ہے۔ایک تکثیری و متنوع سماج جہاں مختلف مذاہب‘تہذیب و کلچر‘زبان و تمدن‘روایات وَرسومات کے جلو وَپہلومیںاپنی ہی ایک اتفاقات و اختلافات کی جلوہ گری باہم مدغم ہوکر ہندوستانیت میں ڈھل جاتی ہے‘ اور برقرار بھی رہتی ہے بلکہ ترقی کے منازل بھی طئے کرتی ہے؛سونے پہ سہاگہ کثرت آبادی کی مناسبت سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا امتیاز بھی بھارت کو حاصل ہے۔
لیکن گنگا جمنی بھارتی بہار کے تذکرہ کا تانا بانہ ان گزرے 8-9برسوںمیں ٹوٹ پھوٹ سا گیا ہے۔ اب نہ آن بان باقی ہے‘اور نہ ہی شاہانہ شان باقی رہ گئی ہے؛حکومتیں مملکتیں وقار بھروسہ اور اقبال سے قائم و دائم رہتی ہیں؛پُھٹّے پکارے اور ہر کسے گلے پڑنے سے ظرف کی گہرائی گیرائی طشت از بام ہوہی جاتی ہے؛(کہہ رہا ہے شور دنیا سے سمندر کا سکوت۔۔۔جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خموش ہے)جس کا جیتا جاگتا ثبوت BBCکی ڈاکیومنٹری اور ہنڈن برگ کی انکشافاتی رپورٹ ہے؛جس نے کسی فرد واحد ہی کو نہیں بلکہ اجتماعیت کو زلزلہ زد کردیا ہے؛اب چاہے دیش بھکتی کے پیچھے چھپا جائے یا کپڑے پھاڑ لیے جائیں۔کیا یہ غلط ہے کہ(!؟)کہ زاعفرانی اندبھکتی نے وِشو گرو بننے کی چاہ میںبھارت کی ممتاز جمہویت کو چہار جانب بکھیر کر رکھ دیا ہے؛جمہوریت کا اوپری خول باقی رہ گیا ہے اور اندر کا مغر ذہین و ذہن ساز نے جو تباہی مچائی ہے اس کے ڈھول کی پول باہر کے ادارے انجمنیں‘تحقیقاتی ایجنسیاں دن کے عین اجالے میں کھول کر رکھتی جارہی ہے؛حتی کہ شرمساری بھی باقی بچی نہیں ہے۔
حزب اختلاف کا قائدجس کی زبان بندی کا سامان گھربھر(ملک میں)میں کیا گیا ہو اور اگر وہ لوک سبھا کا ممبر ہونے کے باوجود اظہاروَبیان نہ کرسکتا ہو؛اظہار کربھی دے تب ریکارڈ سے حذف کردیا جاتا ہو؛نیزعوام تک بات پہنچانے کے سارے سہارے سنگ راہ وَسدّراہ بنادیے جائیں؛(حتیٰ کہ دیش کے ایک کونے سے دوسرے تک ہزاروں kmاورمہینوں وقت لگا کرعوام کے دََر اور راہ گزر پربہ نفس نفیس جاکرکہا اور سنا جانے کی آخری سبیل باقی رہ جائے)پریس میڈیا ‘مخالف و ہمنوا نیز سرکار و دربار پپونانے میں‘بدنام و مشہور کرنے میںید طولیٰ رکھتے ہوں۔۔۔تب جمہوریت بھولی بسری یادیں بن کر میوزیم میں سجانے اور بسانے کے قابل رہ جائے گی؛بھارت اسی بلیک ہول کی جانب تیزرفتاری سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔
حیرت کا ہمالیہ ہے کہ حزب اختلاف کی بجائے سرکار بہ ذات خود سنسد کو چلنے نہیں دے رہی ہے۔بھاجپا جب اپوزیشن میں تھی تب اس کا وطیرہ یہی رہا تھا کہ وہ پارلیمان کے ایوانوں کی کاروائی کو چلنے سے روکنے میں مہارت رکھتی تھی؛اور سرکار کو مجبور کرتی تھی کہ وہ اس کے مطالبات کو پورا کرے حتیٰ کہ اس کے مطالبے پر UPAکو لا محالہ JPCتشکیل دینی پڑی تھی؛لیکن اب سرکار میں رہتے ہوئے وہ انکار پر اڑی ہوئی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے میڈیا حزب اختلاف کا حمایتی اور سرکارکے سر پر سوال لے کر سوار رہتا تھااور اب اپوزیشن کا پکّا دشمن اور سرکار کا چاٹو کار‘بکاؤ اورگود میں سوار شیر(دودھ)خور ہوگیا ہے؛اور شیر مادر(سرکار)کو اشتہارکی شکل میں کھاتا پیتااور ڈکار اور ڈنکاردیتا جن جنتا اور جمہوریت وقلم وقرطاس کی خدمت میں جٹا رہتا ہے۔
چنانچہ سوال لازمی ہوجاتا ہے کہ کیا سرکار اڈانی اسکام سے توجہہ ہٹانے اورسنسد کے صفحات(ریکارڈ)میںجگہ نہ دینے کی خاطر پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دے رہی ہے؛یعنی اپوزیشن کو سنسد میں بولنے کاموقع سرکار دینا نہیں چاہتی ہے؛راہول گاندھی کے بیرون ملک بیانات کو بنیاد بنا کرمعافی مانگنے پر مسلسل اصرارسے کیا بات کھل نہیں جاتی ہے کہ گجراتی بندھو اڈانی بھائی کی لاج رکھنے کی خاطرحق اخوت نبھایا جارہا ہے؛اور کیا یہ مہابلیوں کے درمیان کی دوستی اور بھائی چارہ کے علاوہ اور کچھ بھی ہوسکتا ہے!یا پھر مادّی و معنوی مفاد کا معاملہ گردانا جائے!؟اور گجراتی کا درد گجراتی کے علاوہ بہتر طریقے سے اور کوئی سمجھ سکتا ہے تبھی تو ماناجارہا ہے کہ سرکار اسی لیے خود سنسد کو مہر بند کر رہی ہے یعنی اپوزیشن کی منہ بندی کی جارہی ہے۔جمہور کے محصولاتTaxesسے چلنے وا لی سرکار اورسنسد آم چوسنے کے طور طریقے سیکھنے سکھانے کے لیے وقف یا قائم تو نہیں کی گئی ہے۔سرکاراور بھاجپااور Rss۔۔۔مین اپوزیشن کے قا ئد راہول گاندھی کو دیش دروہی اورمجرم سمجھتی ہے تب سنسد میں قرارداد پاس کرسکتی ہے‘معطل کرسکتی ہے یا اخراج ہی کردے کہ ۔۔۔نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسریا؛لیکن سرکار پر لازم ہے کہ وہ اپوزیشن کردارادا نہ کرے ؛اور نہ ہی عوام کی رقومات کو یوں ضائع کرے۔
معاملہ صرف راہول گاندھی اور کانگریس کا نہیں ہے؛بلکہ ساری اپوزیشن جب اڈانی اسکام کی تحقیقات‘اوراڈانی مودی تعلقات کی حقیقت جاننے کے لیے JPCچاہتی ہے؛ اورمغربی بنگال کی مہواموئتراشروع ہی سے اڈانی پر سوال کھڑی کرتی رہی ہے تب جمہوریت کا تقاضہ اور وجوب لازم ہوجاتا ہے کہ اس مطالبہ کی پذیرائی کی جائے۔مطالبہ کی پذیرائی کی بجائے پارلیمنٹ کے ایوانوں اور کاوائی وَاجلاسوں کو ملتوی کیا جاتا رہے ؛اور سنسد کے باہر احاطہ میں اپوزیشن یک جٹ متحد ہوکر مطالبہ دہرائے تب یہ جمہوریت کی بقا و ترویج کے لیے قاتلانہ ادائیں وَعلامتیں قرار دی جائے تو عجب کیا ہے۔ملک کے مفاد میں ہے کہ جب تمام ہی 16-18اپوزیشن پارٹیاں مطالبہ کررہی ہے تب سرکار کا رویہ اہنکاری اور ہٹیلا ہوجاتا ہے تب سمجھا جائے گا کہ سرکار اظہار کے حق کو ختم کردینا چاہتی ہے؛یااپوزیشن مکت اقتدار چاہتی ہے تب بیرون ملک اور دیس میں راہول گاندھی کا الزام کہ بھارت میں جمہوریت خطرے میں ہے سچ اور مبنی بر حقیقت سمجھا جائے گا۔راہول کے موقف میں وزن ہے کہ جب سنسد میں چار منسٹر نے ان پر الزام لگایا ہے تب ان کو جوابی اظہار یا صفائی دینے کامطالبہ عدل و انصاف ‘اصول وَروایات کے عین مطابق۔۔۔اور روکنا یا جواب دینے اورصفائی پیش کرنے سے محروم کرنا ظلم نا انصافی کہلائے گی۔راہول کے موقف میں وزن ہے اور پھنس گئی سرکار اور مودی ہے کیونکہ ان کے سوالات ہنوز مودی کی جانب سے منتظر جواب کٹہرے میں ہے ہیں۔
ED/CBI/ITaxوغیرہ کی یک رخی غیر منصفانہ وَجارحانہ کاروائیاںجس کا رُخ وَتعلق اپوزیشن کی جانب تقریباً ہوتا ہے؛اور سرگرمیوں ‘raidsوَ اقدامات کی لاٹھی بالخصوص انتخابات سے قبل چلائی جاکراپوزیشن پارٹیوں اور قیادتوںکا مزاج ٹھکانے لگادیا جاتا ہے۔ اوردیکھاگیا ہے کہ ان اقدامات اور کاروائیوں کی وجہ سے دیش کی اپوزیشن کو سیاسی نقصان اور برسر اقتدار بھاجپا کو فائدہ ہوتا ہے؛نیز الزامات لگائے گئے مخالف پارٹی لیڈرس بھاجپا میں شامل ہوجاتے ہیں تب صاف ستھرے اور پاکباز نیز الزامات سے برات پاجاتے ہیں؛اور اس کی وجہ سے ان کی اختلاف و احتجاج و اظہار کی نوٹ بندی ہوجاتی ہے جب کہ اس طرح آواز دبا دینا آمریت کا خاصّہ اور جمہوریت کی ہلاکت کا شاخسانہ ہے۔معاملہ افراد ہی کا نہیں بلکہ اپوزیشن کی سرکاریں بھی بھاجپا کے آغوش میں آکر چُپ شاہ کا روزہ رکھنے لگتی ہیں اور یہ تمام ایک پارٹی طرز حکومت کی تیاری ہے اور اپوزیشن ہوگا تو اظہار و احتجا ج سے عاری مجہول کمزور اوربے بس وَبدنام ہوگا تاکہ عوام ان پر بھروسہ کرنے سے بِدک کر دور رہیں اور بھاجپا کے اشارہ ابرو کے غلام منہ میں گھونگنیاں گھولتے ٹِک ٹِک دیدم بنے رہیں۔سوال یہ بھی کہ کیا بھرشٹا چارمیں لُت پُت کیا صرف حزب اختلاف کے قاید ہی ہوسکتے ہیں اور برسر ااِقتدار جن کے ہاتھوں میں پاور ہوتا ہے اور جو سفید کو سیاہ کرسکتے ہیں وہ ماں پیٹ سے برائی وَبھرشٹا چار مکت پیدا ہوتے ہیں؛اور امکانات ہوسکتے ہیں اسی لیے اظہار و احتجاج پر قدغن و لگام لگائی جارہی ہے تاکہ جنتا جان لے کہ بھاجپا راج میں سب چنگا سی ہے۔
یاد ہوگا کہ بھارت جوڑو پد یاترا کے چار پانچ ماہ کے دوران دیس اور دیس واسیوں کے بنیادی مسائل اور مُدّوں پر کانگریس پارٹی اور راہول گاندھی بیانات وَاحتجاج درج کراتے رہے ‘اور عوام کے ذہن وفکر کو بھاجپا کے غیر حقیقی ‘فضول اور لایعنی مذہبی منافرتی مدّوںسے ہٹا کر۔۔۔ ملک کے مفاد وَترقی کی جانب موڑتے رہے ہیں؛چنانچہ بھاجپا کے انتخابی و سیاسی کامیابی کے اصل ٹرمپ کارڈ۔۔۔مذہبی نفرت ومنافرت ۔۔۔کے بازاروں میں باہمی بھائی چارہ و محبت کی دوکان کھولنے کا سندیسہ دیا جاتا رہا ہے۔علاوہ ازیں اڈانی امبانی فیکٹرکو بھی شامل کیا گیا کہ دیس کی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں کارپوریٹ اور سرکار کے گٹھ جوڑ کا سامنے لایا جائے۔مہنگائی بیروزگاری‘ارتکاز دولت اور بڑھتی معاشی و سماجی کھائی نیز کسانوں فوجیوں اور وظیفہ یابوں کے مسائل محور کے مکین بنے رہے۔ لیکن زاعفرانی چانکیائی کا کمال دیکھا سمجھا جاسکتا ہے کہ اب ماہ دو ماہ سے بنیادی امور عوام کے ذہن و فکر سے دور کردیے گئے ہیں اور سارا میڈیا اور سرکارراہول اڈانی بیرون ملک بیانات پر سارا زور خرچ کررہاہے حتیٰ کہ ایوان پارلیمان کو بھی اسی شور سے بھر دیا گیا ہے؛جب کہ مہنگائی اور بیروزگاری میں منہ زور اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یہ حقیقت زیر ذہن و فکر رہے کہ امریکی وَیوروپین بنکوں میں ان دنوں دَر آئے جدید crisisکی وجہ سے جہاں inflationوہاں بڑھے گا تب یہاں بھی اس کے اثرات بد کا ظہور ہوگا ؛لیکن یہ سارے اُمور اظہار و احتجاج سے عاری بنادئے گئے ہیں؛جب کہ جنتا بھی 5kgاجناس اور فری بیز ٹائپ کے احسانات تلے دبادیے جاکر ووٹ فارمودی کی جاپ کے پاپ پُنیہ کے زیر اثرٹرانس (Trance)میں عقل و احتجاج سے عاری داخل دفتر کردی گئی ہے۔
اظہار و احتجاج و آزادی فکروَرائے کی مناسبت سے گفتگو میں میڈیا کے اصل و قرار واقعی کرداراور موجودہ عمل دخل وَبے راہ روی پر گفتگو از بس ضروری ہے۔2014کی تبدیلی کی بنیادوں میں اصل و قابل ذکررول پریس و میڈیا کا رہا ہے؛جس کے دم خم پر UPAکا دم بے دم بناکر تخت اقتدار سے تختہ محرومی پر پھینک دیا گیا۔اور آج تک کاسہ گدائی اس کے ہاتھ میں ہے؛اور ہاتھ کے سمبل کو موقع ہی نہیں مل رہا ہے ؛یا فتنہ سازی اس طرز وَادا کی رچی گئی کہ بجز بھاجپا کے کوئی غیر علاقہ اقتدار کی گردیابُو باس کو پاسکے؛چنانچہ دیس بھر میں متعارف سیکولر مین اپوزیشن کانگریس پارٹی کو بالخصوص پریس و میڈیا نے اپنے نشانے پر رکھاکہ وہ واپس اپنے مقام پر مراجعت GoBackکرسکے؛اور اس میں پریس و میڈیا کی بدمعاشیاں شامل و حائل ہیں۔ان حالیہ گزرے دس پندہ برسوں میں چنندہ کارپوریٹ نے اسی مذکورہ بالا ہدف کو سامنے رکھ کر پریس ومیڈیا پر دام اُلفت دراز کیا گیا۔جمہوریت اور جمہوری اقدار کے خاتمہ اور بھگوا منووادی فکر و نظریہ کے قیام بقا و ترویج کے پیش نظریہ ایک دُور رََس لانگ ٹرم پالیسی وَپلاننگ کا ایک اَنگ(حصہ)ہے۔دھنّہ سیٹھ ساہوکار پہلے بھی جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیاسے وابستہ تھے لیکن انہوں نے اپنے نفع نقصان کو پالیسی کو عمومی طوپر الگ رکھا؛ مقاصد میڈیا کو فراموش کیا اور نہ ضمیر کو اس بری طرح کچل ڈالا‘اسی لیے عزت سے یاد بھی کیے جاتے ہیں۔میڈیا کے ایک جانب انتظامیہ اور مالک ہیں تب دوسرے Endپرجن جنتا اور جمہوریت کی بقا و ترویج ہے؛اسی لیے پریس میڈیا سامان تجارت بھی بنادیا جائے یا قرار دیا جائے تب چند ایک کی خاطر جنتا اور جمہوریت کا داؤ پر لگایا نہیں جاسکتا۔اور یہ کام کوئی بھی برسر اقتدار کرنا نہیں چاہے گا؛اسی لیے عدلیہ عالیہ (سپریم کورٹ)کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس جانب توجہ کرے کیونکہ دستور کی محافظت اور جمہوریت کی بقااس کے مقصد وجود کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔یہی معاملہ الکشن کمیشن سے متعلق ذمہ داریوں سے وابستہ ہے۔بھارتی عدلیہ بھارتیوں کی آخری مادّی امید وَبھروسہ قرار دیا جاتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰