طنز و مزاحمضامین

شکوہ بجواب شکوہ

مظہر قادری

(حوالہ۔۔۔جناب عطاء الحق قاسمی کا مضمون ”ایک اوروصیت نامہ“ مورخہ ۲۵/مارچ ۲۰۲۳؁ء)
والد صاحب قبلہ۔۔۔آپ کا خط ملا، پڑھ کر اپنے آپ پر لعنت بھیجا کیوں کہ آپ نے اپنے خط میں مجھ پر لعنت بھیجی تھی کہ میں آپ کے معیارپرپورا نہیں اُترا اوروہ سب کچھ نہیں کرسکا جوآپ مجھے سکھائے تھے۔توسنیے! میں آپ کے کان کھولنے کے لئے بتاتاچلوں کہ یہ صحیح ہے کہ آپ اپنے وقت کے نامورچور،پاکٹ ماراورڈاکوتھے اورمجھے بھی اس فن میں ماہربنانے کے لیے آپ نے اپنے سارے تجربے کا نچورسکھایا لیکن افسوس! آپ کے Visionیعنی مستقبل کی لاعلمی پر ہوتاہے۔آپ نے جوجوچیزیں مجھے اس پیشہ کی سکھائیں وہ ساری کی ساری Out Datedہوگئی۔آپ نے مجھے پاکٹ مارنے میں ماہر بنادیا لیکن وہ ہنرآپ کے زمانے میں کام آتاتھا، آج کسی کی جیب میں پیسہ ہی نہیں ہے، اب توالیکٹرانک لین دین کا زمانہ آگیا ہے۔آپ نے یہ سوچ کر میری صورت بھیانک بنادی کہ لوگ مجھ سے ڈریں،لیکن آپ نے یہ سوچاہی نہیں کہ وہ آپ کے زمانے میں چلتاتھا۔اب معصوم صورت بناکر دھوکہ دینے اورلوٹنے کا زمانہ ہے۔آپ نے مجھے جاہل رکھاتاکہ تعلیم حاصل کرکے میں کمزوراوربزدل نہ بن جاؤں۔لیکن آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اب ہرجرم کرنے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔سائبرکرائم کے ذریعہ لوگ کروڑوں روپئے لوٹ رہے ہیں جوتعلیم یافتہ لوگوں کا پیشہ ہے۔جس سے آپ نے مجھے محروم کردیا۔آپ نے مجھے لوگوں کو ڈرانے کے ہنرمیں ماہر کردیا، لیکن آپ جانتے نہیں کہ آج کی تاریخ میں کسی ڈراؤنی صورت سے کوئی نہیں ڈررہاہے کیوں کہ ایک سے ایک بھیانک شکل والے اب لیڈ ربن گئے ہیں۔بجائے ڈرانے کے ہنرکے اگرآپ مستقبل میں تھوڑا سا جھانک کر مجھے ہنسانے کا فن بھی سکھادیتے توشاید میں آج کسی ریاست کا وزیراعلیٰ رہتا۔آپ کے داداجتنے بڑے ڈکیت تھے اس سے بڑے ڈکیت آپ کے والد نکلے اورآپ نے ان دونوں کا ریکارڈ توڑکر اپنا سکّہ جمایا، لیکن آپ یہ بھول گئے کہ جولکیر کے فقیررہتے ہیں وہ ترقی نہیں کرسکتے۔ کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو وقت اورحالات کے حساب سے ہمیشہ بدلتے ہیں۔آپ کو چاہیے تھاکہ آپ مجھے لیڈ ربناتے توشاید میں آپ کی توقع سے کئی گنازیادہ آپ کے خوابو ں کی تعبیر دے سکتاتھا،لیکن آپ نے میری قسمت پھوڑدی اورگن اوربم کے دورمیں مجھے تیر اور تلوارچلانے کی تربیت دی۔اب میں اگر تیر اور تلوارلے کر ٹھہرتا تودشمن اپنی گن سے دورہی سے میرا کام تمام کردیتے۔آپ کے زمانے میں دماغ کانہیں جسم کا کام تھا جوآپ نے موروثی میراث کے طورپر مجھے دے دیا لیکن آج جسم کا نہیں دماغ کا زمانہ ہے جس سے آ پ نے محروم کردیا۔آپ کو توقع تھی کہ میں سب کی زندگی مسلسل خطرے میں ڈالوں گا، لیکن آپ کے غلط کیریئر چننے کی وجہ سے خودمیری زندگی خطرے میں پڑگئی کیوں کہ آج کل جولوگوں کی زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں وہ سارے کے سارے سفید پوش ہیں، میرے جیسے بھیانک شکل والے نہیں۔ہرایک چہرے پہ مکھوٹا چڑھاہواہے۔آپ نے مجھے حلال حرام کے فرق کا پیشہ سکھایاتھا، لیکن اب زیادہ تر پیشوں میں حلال حرام کی کوئی قیدنہیں رہی۔ صرف حرام کی کمائی ہی کمائی ہے۔حلال کی کمائی صرف اورصرف فاقہ مستی ہے۔آ پ نے اپنی دھاک بٹھانے کے لیے دوسروں کی بہو بیٹیوں کی زبردستی عصمت ریزی کا مشورہ دیاتھالیکن اب زبردستی کی ضرورت ہی نہیں۔آپ کے زمانے میں مزاحمت کرنے والوں کے سینے میں گولیا ں اتارنے پر بھی کچھ نہیں ہوتاتھا لیکن آج کل شریف کے جیب سے اگرقلم تراش بھی نکل گیا توعمر قیدکی سزاہوجاتی ہے۔ آپ نے مجھے شراب، افیون،چرس اورگانجے کے کاروبارکو اپنی ذاتی بل بوتے پر فروغ دینے کو کہاتھا لیکن اب یہ کارپوریٹ کاروبارہوگیا جس میں میری حیثیت تنکے کی بھی نہیں ہے۔آ پ کی ناقص تربیت کی وجہ سے نہ تومیں شراب بیچنے کے قابل رہااورنہ ہی دودھ بیچ سکا وہ توبھلاہوکہ میں نے آ پ کے پچاس سالہ قدیم تجربے کے مشورے کو چھوڑکر اپنے ہم عمر دوست کے ماڈرن مشورے کو اپناکر لیڈری کا پیشہ شروع کردیا۔آپ کی ساری زندگی کی تربیت میں مجھے آ ج کے دورمیں صرف اورصرف ایک نصیحت صحیح لگی کہ دنیا میں جتنے بھی برے کام کرکے ترقی کرنا چاہوتوہمیشہ برسراقتدارپارٹی کے ساتھ رہواورکبھی اپوزیشن پارٹی کے سپورٹ پر کوئی کالا دھندامت شروع کروجس پر میں نے سختی سے عمل کرنا شروع کردیاہے اوراس کے فوائد اب رفتہ رفتہ پھلنے پھولنے لگے ہیں اورمیں آ پ کی توقع سے زیاد ہ ترقی کررہاہوں۔ا ب میرے سارے جرائم پر برسراقتدارپارٹی کا سایہ رہنے کی وجہ سے اب پولیس والے مجھے پکڑنے نہیں آرہے ہیں بلکہ مجھے تحفظ فراہم کررہے ہیں۔اب عدالتیں مجھے سزا نہیں سنارہی ہیں بلکہ راحتیں پہنچارہی ہیں۔اب انکم ٹیکس والے مجھ پر ریڈ کرنے کے لیے نہیں آرہے ہیں بلکہ حصہ لینے کے لیے آرہے ہیں۔اب مجھے کسی کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لوگ مجھے سلام کررہے ہیں۔آ پ کی طرح ڈکیٹی چوری کرکے دنیا سے ڈرکر پھرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آج میری لیڈ ری سے دنیا مجھ سے ڈررہی ہے۔آ پ نے جوتربیت دی تھی، اس سے میرابیڑا غرق ہوگیاتھا، لیکن میں نے آپ کی پڑھائی ہوئی کتاب چھوڑکر اپنا راستہ اختیارکیا توآ ج نہ صرف میرا بلکہ میرے آنے والی سات پشتوں کا مستقبل روشن ہوگیاہے۔آج میرے بچے بھی ابھی سے لیڈری شروع کردیے ہیں اورچھوٹی موٹی جبری وصولی،ڈھاک،غنڈوں کے پارٹی ورکرس وغیرہ تیارکرلیے ہیں اورامید ہے کہ ان کا مستقبل مجھ سے بھی شاندارہوگا۔آپ نے جتنے بھی کام مجھے سکھائے تھے وہ منہ چھپاکے کرنے پڑتے تھے لیکن اب جوجوکام میں کررہاہوں وہ ڈنکے کی چوٹ پر کررہاہوں،اب آپ کومیرے یا آنے والی نسل کے مستقبل کے تعلق سے شرمندہ اورپریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اب آپ اطمینا ن سے مرسکتے ہیں اور مجھ جیسے لیڈ ر کے والدہونے کی وجہ سے آ پ کا جلوس جنازہ بہت ہی شانداراوریادگا رہوگا …… فقط……آپ کا نگینہ یاکمینہ بیٹا۔