مشرق وسطیٰ

100 ایرانی قیدیوں کو ممکنہ سزائے موت کا سامنا!

ایک ایرانی انسانی حقوق کے گروپ نے جمعہ کے روز تصدیق کی ہے کہ ایران میں کم از کم 100 زیر حراست مظاہرین کو ممکنہ موت کی سزا کا سامنا ہے۔

تہران: ایک ایرانی انسانی حقوق کے گروپ نے جمعہ کے روز تصدیق کی ہے کہ ایران میں کم از کم 100 زیر حراست مظاہرین کو ممکنہ موت کی سزا کا سامنا ہے۔

ناروے میں ہیڈ کوارٹر رکھنے والے ایران میں قائم انسانی حقوق کے گروپ نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ کم از کم 100 مظاہرین کو اس وقت سزائے موت کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان کے خلاف ممکنہ موت کی سزا کا خطرہ موجود ہے۔ گروپ نے کہا یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ایرانی عدالتوں نے اب تک ایک درجن سے زائد مقدمات میں موت کی سزائیں سنائی ہیں جن میں مظاہرین کو سکیورٹی فورسز کے ارکان کو ہلاک یا زخمی کرنے، عوامی املاک کو تباہ کرنے اور عوام کو دہشت زدہ کرنے کے جرم میں مجرم قرار دینے کے بعد "محاربہ” جیسے الزامات کی بنیاد پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔

جمعہ کو ایران کے شورش زدہ جنوب مشرق میں مظاہرین نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی مذمت کرتے ہوئے نعرے لگائے۔ 16 ستمبر کو 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں مذہبی قیادت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

ایرانی اخلاقی پولیس نے حجاب نہ کرنے پر مہسا امینی کو گرفتار کیا تھا اور پولیس حراست میں ہی مہسا کی موت ہوگئی تھی۔ مظاہرین نے نعرے لگائے ”مرگ بر آمر، مردہ باد خامنہ ای!“ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے۔ اس ویڈیو کلپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا تعلق صوبہ سیستان و بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان سے ہے۔

غریب صوبے میں 20 لاکھ بلوچ اقلیت آباد ہے اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ انہیں کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک اور جبر کا سامنا ہے۔ یہ احتجاج جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے 1979 کے انقلاب کے بعد سے ایران کو درپیش سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔