حیدرآباد

شریعت محمدیؐ کی پابندی میں دارین کی کامیابی، الانصار فاؤنڈیشن کے زیراہتمام درس قرآن کی 118 ویں نشست سے مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی کا خطاب

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ منافقین میں سے دو لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے مشرکین کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں بارش ہونے لگی، جس میں سخت گرج اور چمک تھی، ان کا حال یہ ہوا کہ جب گرج ہوتی تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے کہ اس سے کہیں ان کے کان نہ پھٹ جائیں اور جب چمک ہوتی تو چلنے لگتے۔

حیدرآباد: مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ منافقین میں سے دو لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے مشرکین کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں بارش ہونے لگی، جس میں سخت گرج اور چمک تھی، ان کا حال یہ ہوا کہ جب گرج ہوتی تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے کہ اس سے کہیں ان کے کان نہ پھٹ جائیں اور جب چمک ہوتی تو چلنے لگتے۔

متعلقہ خبریں
امت مسلمہ، تمام امتوں سے بہتر، الانصار فاؤنڈیشن کے زیراہتمام درس قرآن کی 119 ویں نشست، مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی کا خطاب
شریعت پر عمل سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے: مفتی وجیہ اللہ سبحانی کا خطاب
الانصار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہفتہ واری درس قرآن کی 119 ویں نشست
الانصار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہفتہ وار درس قرآن
الانصار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہفتہ واری درس قرآن

جب تاریکی چھا جاتی تو ٹھہر جاتے۔ اپنے آپ میں کہنے لگے کہ شاید اس گناہ سے ہم پر مصیبت آئی ہے۔ خدا خیر سے سحر نمودار کردے تو ہم رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں واپس جاکر ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں گے۔

ان خیالات کا اظہار مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی نظامی نقشبندی قادری چشتی، امام جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر مارکٹ و خطیب مسجد رضیہ بیگم ملک پیٹ جدید نے 11/ اگست 2024 بروز اتوار بعد مغرب الانصار فاؤنڈیشن کے زیراہتمام جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر مارکٹ میں ہفتہ واری درس قرآن کی 118 ویں نشست میں سورہ بقرہ کی 19 ویں آیت پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا قاضی ابواللیث شاہ محمد غضنفر علی قریشی اسد ثنائی خطیب جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر و بانی الانصار فاؤنڈیشن نے نگرانی کی۔ قاری محمد تراب علی قریشی نائب امام مسجد محبوبیہ کی قرأت و نعت سے درس کا آغاز ہوا۔

محترم جناب محمد ضیاء اللہ عرفانی نقشبندی قادری نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔ مفتی صاحب نے کلام کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ  اللہ رب العزت نے ان پر فضل و کرم فرمایا اور اس مصیبت سے انھیں نجات دے دی۔ وہ دونوں حسب ارادہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاضر ہوکر ایمان لاتے ہوئے سچے مسلمان بن کر اسلام پر صحیح معنی میں قائم رہے۔

اس موقع پر یہ مذکورہ آیت کا نزول ہوا۔ خالق ارض و سما نے ان کے اس واقعہ کو باقی منافقین کے لیے کہاوت (ضرب المثل) بنادیا اور اس قصے کو ان کی روش پر منطبق فرمادیا۔ (تفسیر خزائن العرفان)۔ بعض منافق نفاق میں پختہ تھے جن کے ایمان لانے کی کوئی امید نہ رہی، ان کے لیے پہلی مثال تھی۔ یعنی وہاں فرمایا گیا کہ بہرے گونگے اندھے ہیں اب نہیں لوٹیں گے۔

بعض منافقین نفاق میں کمزور تھے، جن کے ایمان کی امید کی جا سکتی تھی ان کے لیے بطور دوسری مثال ارشاد حق تعالیٰ ہوا کہ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے یعنی اچکی نہیں۔

مفتی وجیہ اللہ سبحانی نے کہا کہ کلام الٰہی میں منافقین کی حالت کو دوسری نہایت نفیس کہاوت سے سمجھایا جارہا ہے کہ ان کی حالت ان لوگوں کی طرح ہے جو تاریک رات میں سنسان بیابان طئے کر رہے ہیں کہ اچانک ان کو نہایت سیاہ بادل آگھیرے۔ یہ لوگ سخت تاریکی میں پھنس جائیں۔ پھر اس سے بارش تیز بجلیاں اور گرج ظاہر ہو۔ گرج کو سن کر تو ان لوگوں کو اپنی موت کا اندیشہ ہوجائے۔ جس سے وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے لگیں کہ کہیں اس آواز سے ان کے کان کے پردے نہ پھٹ جائیں اور بجلی کی روشنی پاکر چلنے لگیں۔ اور اندھیرا ہونے پر کھڑے رہ جائیں۔

الغرض عجیب کشمکش میں مبتلا ہوجائیں اور وہ اس حالت میں نہایت حیران و پریشان ہوں کہ کچھ سجھائی نہ دیتا ہو کہ کہا ں جائیں کیا کریں؟ یہی حال ان منافقین کا ہے کہ اپنی زندگی کی تاریک رات میں دنیاوی جنگل طے کر رہے تھے کہ اچانک ان کے شہر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تشریف آوری ہوئی جو کہ رحمت باری تعالیٰ کا گہرا بادل ہیں اور آپ پر نزول قرآن مجید کا ہونا مثل تیز بارش کے ہے جس طرح بارش تمام زمین کو سرسبز و شاداب کردیتی ہے، اس میں باغ کھیت اور پھل پھول لگا دیتی ہے۔

بالکل اسی طرح قرآن کریم کی بارش نے دلوں کی زمین میں ایمان کے باغ لگادئیے۔ اور ان باغات میں تقویٰ و پرہیزگاری کے پھول کھلادئیے۔ مگر اسی قرآن میں احکام شرعیہ اور جرائم کی سخت سزائیں، دنیا سے بے رغبتی کرنے کا حکم بھی ہے۔ جو کہ مثل گرج اور کڑک کے ہے۔ یہ منافقین کانوں میں انگلیاں داخل کرلیتے ہیں کہ کہیں یہ کلام ربانی ان کے دلوں پر اثر نہ کرجائے، جس سے کہیں ان کے دنیاوی عیش و آرام میں فرق نہ آجائے، مال کی زکوٰۃ دینی نہ پڑجائے، جہاد میں اسلام پر جان نثاری کرنی نہ پڑجائے۔ کیونکہ یہ چیزیں ان کے نزدیک موت ہیں۔

مگر جب کبھی ان کے مال یا اولاد میں برکت ہوتی یا غنیمت اور زکوٰۃ کا مال ان کے ہاتھ آتا تو بجلی کی چمک والوں کی طرح کچھ چل پڑتے اور کہتے کہ اسلام سچا دین ہے، جب سے ہم نے ظاہراً کلمہ پڑھا ہے ہمارے گھر میں اللہ کافضل ہے۔ اور جب کوئی مصیبت آجائے جیسے اولاد یا مال میں کمی واقع ہوجائے وغیرہ وغیرہ تو بارش کی تاریکیوں میں ٹھٹک کر رہنے والوں کی طرح کہنے لگتے ہیں کہ جب سے ہم نے ظاہراً کلمہ پڑھا ہے تب ہی سے ان مصیبتوں میں گرفتا ہوئے ہیں، یہ دین سچا نہیں ہے، کہہ کر اسلام سے پلٹ جاتے ہیں۔

مگر حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کفر کر کے ہمارے قبضے سے باہر نہیں ہوسکتے کیونکہ سب مخلوق اور خاص کر کفار پر ہماری قدرت کا پورا احاطہ ہے کوئی بھاگ کر کہاں جاسکتا ہے اور کسی کی کیا مجال کہ اپنے تدبیری قلعے کے ذریعہ ہم سے بچ جائے۔ ڈاکٹر کی کڑوی دوا سے بچ کر یعنی شریعت محمدی کی پابندی چھوڑ کر اپنی غلط تدابیر سے شفا چاہنا حماقت و بے وقوفی ہے۔

مفتی صاحب نے بتایا کہ ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ دوسری مثال میں ان منافقین کا حال بیان ہوا جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و بارش کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے اور بیگانے،مخلص اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔

منافقوں کی اسی طرح کی حالت سورہئ نور آیت نمبر 48 اور 49 میں بھی بیان کی گئی ہے۔ آخر میں مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی کی دعا پر درس قرآن کی 118 ویں نشست اختتام کو پہنچی۔ اس موقع پر عوام الناس کی کثیر تعداد شریک تھی۔