ایشیاء

عمران خان پر حملہ کیس میں ایف آئی آر کے اندراج پر تعطل برقرار

عمران خان پر قاتلانہ حملے کے سلسلے میں ایف آئی آر کے اندراج پر تعطل برقرار ہے کیوں کہ سابق وزیراعظم نے اپنی شکایت سے پاکستانی فوج کے سینئر عہدیدار کا نام واپس لینے سے انکار کردیا۔

اسلام آباد: عمران خان پر قاتلانہ حملے کے سلسلے میں ایف آئی آر کے اندراج پر تعطل برقرار ہے کیوں کہ سابق وزیراعظم نے اپنی شکایت سے پاکستانی فوج کے سینئر عہدیدار کا نام واپس لینے سے انکار کردیا۔

فوجی عہدیدار کے علاوہ ان کی شکایت میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ شہباز شریف حکومت کے خلاف اپنے آزادی مارچ کے دوران صوبہ پنجاب کے وزیرآباد علاقہ میں ان کے کنٹینر پر دو بندوق برداروں کی فائرنگ کے نتیجہ میں ان کے دائیں پیر میں گولی لگی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیرمین خان نے الزام عائد کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ او رمیجر جنرل فیصل نصیر‘ انہیں 2011ء میں پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کی طرح ہلاک کرنے کی مجرمانہ سازش کا حصہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی آر اس لیے درج نہیں کی جارہی ہے کہ کیو ں کہ کچھ لوگ (کچھ ناموں سے) ڈرتے ہیں۔

پنجاب کے چیف منسٹر چودھری پرویز الٰہی‘ زبردست تذبذب کے شکار ہیں کیوں کہ خان ایف آئی آر میں فوجی عہدیدار کا نام شامل کرنے پر اصرا کررہے ہیں۔ اس معاملے پر جمعہ کو پنجاب کی کابینہ کے اجلاس میں بھی تبادلہ خیال ہوا جس میں پولیس کے سربراہ فیصل شہکار کے علاوہ دیگر سرکاری عہدیدار اور صوبائی وزیر قانون بھی شریک تھے۔

اس معاملے سے واقف ایک عہدیدار نے اخبار کو بتایا کہ اجلاس میں کیس کے اندراج کے تمام قانونی پہلوؤں سے متعلق سنگین مسائل پر تبادلہ خیا ل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کیس کے اندراج میں مزید تاخیر‘ ثبوت اکٹھا کرنے اور حملے میں ملوث مشتبہ افراد کو سزا دلانے کی تمام کوششوں پر پانی پھیرسکتی ہے۔

اس مسئلہ پر سیاسی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ذریعہ نے کہا کہ الٰہی کیس میں کسی سینئر فوجی عہدیدار کا نام لینے کی ”منطق“ کے خلاف ہے۔ الٰہی او رپی ٹی آئی کے قائدین نے اس مسئلہ پر کئی اجلاس منعقد کیے جہاں الٰہی نے پی ٹی آئی قائدین کو فوجی عہدیدار کا نام واپس لینے کے لیے منانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس میں ایف آئی آر کے اندراج کے معاملے پر پی ٹی آئی او رپنجاب حکومت کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس سربراہ نے حکومت سے کہا کہ ایف آئی آر‘ قابل دست اندازی جرم کے ارتکاب کا پہلا مستند دستاویزات ہوتا ہے جس کی بنیاد پر تحقیقات کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس ضمن میں تحقیقاتی عمل رک چکا ہے حالانکہ مبینہ شوٹر سمیت تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔

کابینی اجلاس میں پولیس سربراہ نے دیگر شرکاء سے کہا کہ پولیس کو سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی درخواست وصول نہیں ہوئی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل سے متعلق پنجاب پولیس کی رائے ہے کہ کیس کے اندراج سے قبل جے آئی ٹی کی تشکیل قبل از وقت اقدام ہوگا۔ تاہم پی ٹی آئی قائدین نے اجلاسوں میں قطعی فیصلہ لینے کے بعد چیف منسٹر کو درخواست کی کاپی حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عہدیدار نے کہا کہ دیگر دو مشتبہ افراد وقاص اور ساجد بٹ جنہیں پولیس نے جمعہ کو گرفتار کیا، نے مانا جاتا ہے کہ اصل مشتبہ نوید بشیر کو20ہزار روپئے میں پستول اور گولیاں فروخت کیں۔ انہوں نے کہا کہ اصل مشتبہ شخص کو پوچھ تاچھ کے لیے گجرانوالہ انسداد دہشت گردی محکمہ (سی ٹی ڈی) کے عہدیداروں کے حوالے کردیا گیا۔

ایک سینئر پولیس عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ درجن بھر سی سی ٹی وی کیمروں میں قید موقع واردات کے فوٹیج کا معائنہ کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیو ں نے کئی فاش غلطیاں ہیں۔سب سے بڑی غلطی سیکورٹی میں کوتاہی تھی جسے تحقیقات کے پہلے مرحلے میں ترجیح دی جانی چاہیے۔