ایشیاء

پشاور کی مسجد میں خودکش دھماکہ، 46 افراد جاں بحق

پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور کے ہائی سیکوریٹی زون میں پیر کے دن نماز ِ ظہر کے دوران ایک طالبان خودکش بمبار نے مسجد میں خود کو دھماکہ سے اڑالیا۔ کم ازکم 46 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد دیگر افراد زخمی ہوگئے۔

پشاور: پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور کے ہائی سیکوریٹی زون میں پیر کے دن نماز ِ ظہر کے دوران ایک طالبان خودکش بمبار نے مسجد میں خود کو دھماکہ سے اڑالیا۔ کم ازکم 46 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد دیگر افراد زخمی ہوگئے۔

متعلقہ خبریں
امریکہ میں ہندوستانی طالبہ کار حادثہ میں شدید زخمی
ویڈیو: چنگی چرلہ میں مسجد کے سامنے شرانگیزی۔ دوسرے دن بھی امن درہم برہم کرنے کی کوشش
مسجد بیت میں ناپاکی کی حالت میں بیٹھنا
سنہری باغ مسجد، درخواست کی یکسوئی

زخمیوں میں بیشتر پولیس والے شامل ہیں۔ سیکوریٹی اور محکمہ صحت کے عہدیداروں نے یہ بات بتائی۔ پولیس لائنس علاقہ کی مسجد میں دوپہر 1:40 بجے کے آس پاس دھماکہ ہوا۔ پولیس والے‘ فوجی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے لوگ نماز ظہر ادا کررہے تھے۔ بمبار پہلی صف میں موجود تھا۔

لیڈی ریڈنگ ہاسپٹل کے عہدیداروں نے بتایا کہ تاحال 46 جانیں گئی ہیں تاہم پشاور پولیس نے 38 کی فہرست جاری کی ہے۔ زخمیوں میں زیادہ تر پولیس والے شامل ہیں۔ تحریک ِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے مہلوک کمانڈر عمر خالد خراسانی کے بھائی نے دعویٰ کیا کہ خودکش حملہ گزشتہ برس افغانستان میں اس کے بھائی کی ہلاکت کا انتقام ہے۔

ممنوعہ ٹی ٹی پی جو پاکستانی طالبان بھی کہلاتی ہے‘ ماضی میں کئی خودکش حملے کرچکی ہے جن میں سیکوریٹی ملازمین کو نشانہ بنایا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس (انوسٹیگیشن) پشاور شہزاد کوکب نے جن کا دفتر مسجد کے قریب واقع ہے‘ میڈیا کو بتایا کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے ہی تھے کہ دھماکہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خوش قسمتی سے بچ گئے۔

ایک پولیس عہدیدار نے بتایا کہ مسجد کا ایک حصہ منہدم ہوگیا اور سمجھا جاتا ہے کہ کئی لوگ اس کے نیچے دبے ہیں۔ بمبار کڑے پہرہ والی مسجد میں داخل ہوا جہاں سیکوریٹی کے 4 گھیروں سے گزرکر اندر جانا پڑتا ہے۔ کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) پشاور محمد اعجاز خان کے حوالہ سے اخبار ڈان نے اطلاع دی کہ کئی جوان ابھی بھی ملبہ میں دبے ہیں اور بچاؤ کارکن انہیں نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دھماکہ کے وقت 300 تا 400 پولیس عہدیدار علاقہ میں موجود تھے۔ انہوں نے میڈیا سے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سیکوریٹی چُوک ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے یہ کہتے ہوئے حملہ کی سخت مذمت کی کہ حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ دہشت گرددفاع ِ پاکستان کا فریضہ ادا کرنے والوں کو نشانہ بناتے ہوئے خوف طاری کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے عہد کیا کہ دھماکہ میں جاں بحق ہونے والوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ سارا ملک دہشت گردی کی لعنت کے خلاف کھڑا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گڑبڑزدہ صوبہ خیبر پختونخواہ (کے پی) میں نظم وضبط کی ابتر ہوتی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے جامع حکمت عملی بنائی جائے گی۔ وفاقی حکومت صوبوں کی مدد کرے گی تاکہ وہ دہشت گردی سے موثر طورپر نمٹ سکیں۔

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی حملہ کی مذمت کی اور کہا کہ لوکل اور جنرل الیکشن سے قبل ”دہشت گردی کے واقعات“ معنی خیز ہیں۔ گورنر صوبہ خیبر پختونخواہ حاجی غلام علی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ زخمیوں کو خون کا عطیہ دیں۔لیڈی ریڈنگ ہاسپٹل ذرائع کا کہنا ہے کہ 13 زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ دیگر بڑے شہروں بشمول اسلام آباد میں سیکوریٹی بڑھادی گئی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی حملہ کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی انٹلیجنس کو بہتر بنانا ہوگا اور اپنی پولیس فورسس کو بہترین آلات سے لیس کرنا ہوگا تاکہ وہ دہشت گردی کے بڑھتے خطرہ سے نمٹ سکیں۔گزشتہ برس پشاور کے کوچہ رسالدار علاقہ میں ایک شیعہ مسجد کے اندر ایسے ہی حملہ میں 63 جانیں گئی تھیں۔

2007 میں کئی عسکریت پسند تنظیموں کے وفاق کی شکل میں قائم ہونے والی ٹی ٹی پی نے پاکستان کی وفاقی حکومت کے ساتھ لڑائی بندی ختم کردی ہے۔ اس نے اپنے عسکریت پسندوں سے کہا ہے کہ وہ سارے ملک میں ایسے دہشت گرد حملے کریں۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ گروپ القاعدہ سے قربت رکھتا ہے۔

آئی اے این ایس کے بموجب ممنوعہ تحریک ِ طالبان پاکستان نے آج کے حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی۔ پولیس نے بتایا کہ امام مسجد صاحبزادہ نورالامین بھی جاں بحق ہوئے۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ دوپہر 1:40 بجے کے آس پاس نماز ِ ظہر کے دوران دھماکہ ہوا۔