ہندو سماج دلتوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا رہا ہے: جتن مانجھی
بہار کے سابق چیف منسٹر جتن رام مانجھی آج ایک نئے تنازعہ میں گھر گئے جب انہوں نے یہ کہا کہ ہندو سماج بالخصوص پجاری طبقہ دلتوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا رہا ہے اور انہیں اچھوت سمجھا جاتا رہا ہے۔

پٹنہ: بہار کے سابق چیف منسٹر جتن رام مانجھی آج ایک نئے تنازعہ میں گھر گئے جب انہوں نے یہ کہا کہ ہندو سماج بالخصوص پجاری طبقہ دلتوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا رہا ہے اور انہیں اچھوت سمجھا جاتا رہا ہے۔
مانجھی نے موکما اور گوپال گنج اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخاب میں آر جے ڈی امیدواروں کی بہ آسانی کامیابی کی پیش قیاسی کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔
ان حلقوں کے نتائج کا اعلان اتوار کے روز کیا جائے گا۔ ہندوستانی عوام مورچہ کے سربراہ مانجھی کی پارٹی حکمراں مہا گٹھ بندھن کی شراکت دار ہے۔ وہ’موشہر‘ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر سیاسی جماعت جس کے ساتھ انہوں نے اتحاد کیا تھا‘اس ذات کی مہادلت شناخت کا بھرپور استحصال کیا ہے۔
مانجھی نے یہ خیال ظاہر کیا کہ دونوں حلقوں میں دلتوں نے سات رکنی مخلوط اتحاد کے لیے ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے جاریہ سال کے اوائل میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کے ساتھ ترکِ تعلق کرتے ہوئے چیف منسٹر نتیش کمار کی جنتا دل یو کے ساتھ اظہارِ یگانگت کے طور پر اس میں شمولیت اختیار کی تھی۔
صحافیوں کے اس سوال پر کہ آیا بی جے پی ہندوتوا کارڈ کھیلتے ہوئے دلت ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، انہوں نے کہا کہ میں دلتوں سے کہتا رہتا ہوں کہ آپ لوگ خود کو ہندو سمجھتے ہیں، لیکن گذشتہ 75 سال سے آپ کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔
پجاری آپ کے پاس کسی تقریب میں پوجا کرنے سے گریز کرتے ہیں، اور اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو آپ کی جانب سے دی گئی غذا قبول نہیں کرتے، حالانکہ کئی برہمن ایسے ہیں جو گوشت کھاتے اور شراب پیتے ہیں۔ سابق چیف منسٹر نے ماضی میں بھی کئی مرتبہ ایسے ریمارکس کیے ہیں۔
وہ اپنے آپ کو امبیڈکر کا پیرو قرار دیتے ہیں، لیکن بعض مواقع پر انہوں نے برہمنوں کے ساتھ دعوتوں میں شریک ہونے جیسے مفاہمتی اقدامات بھی کیے ہیں۔ اسی دوران بی جے پی نے جو اگست میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سے بے چین ہے، برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جتن رام مانجھی ایک قابل احترام اور بزرگ قائد ہیں۔
انہیں ایسے تبصرے نہیں کرنا چاہیے جس سے ہندوؤں کی توہین ہوتی ہے اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اگر وہ نہیں سمجھتے کہ وہ ہندو ہیں تو انہیں اپنی مذہبی شناخت واضح کرنی چاہیے۔ اگر تلک لگانے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے تو کیا وہ نماز کی ٹوپی پہننا چاہتے ہیں؟
اگر وہ مذہب سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتے تو انہیں پہلے اس کے بارے میں بتانا چاہیے اور اسی کے مطابق پیش آنا چاہیے۔ پارٹی کے دیگر ترجمانوں جیسے رام ساگر سنگھ اور اروند کمار سنگھ نے بھی برہمی ظاہر کی اور کہا کہ مانجھی کے بیانات ان کے سٹھیائے جانے کی عکاسی کرتے ہیں۔