مضامین

پوٹن موسم ِسرما کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں؟

منور مرزا

آئیں، ذراماضی میں جھانکتے ہیں، دوسری عالمی جنگ کا زمانہ ہے، ہٹلر نے رْوس کے مشہور شہر، اسٹالن گراڈ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ عالمی جنگ کی حکمتِ عملی میں یہ محاذ بہت اہم ہے، کیوں کہ ہٹلر کے مطابق اگر اسٹالن گراڈ فتح ہوجاتا ہے،تو رْوس ڈھے جائے گا اور اس کے بعد یوروپ، ہٹلر کے قدموں تلے ہوگا۔فرانس پر پہلے ہی جرمنی قابض ہے۔ یہ 1942 کا زمانہ ہے، ہٹلر کی مشہور چھٹی آرمی اور پینر ڈیویژن اس حملے میں حصّہ لے رہی تھی۔ انہوں نے تقریباً نوسو دنوں تک شہر کا محاصرہ کیا۔ ہٹلر نے اس عرصے میں جرمن ائیر فورس کے بہترین لڑاکا طیاروں کا پورایونٹ جھونک دیا۔
دن رات بم باری کی۔آغاز میں لگا کہ ہٹلر کی فوجیں کام یاب ہوجائیں گی،لیکن جوں جوں سردی نے زور پکڑا، جرمن سپاہ کی ہمّت جواب دینے لگی۔ان کے پاس ہر ہتھیار اورہر فوج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت تھی، لیکن وہ رْوس کے اسٹالن گراڈ کی 35 ڈگری سینٹی گریڈ سردی کا مقابلہ نہ کرسکے۔ مسلسل برف باری اور یخ بستہ ہواؤں نے انہیں بے بس کرکے رکھ دیا۔ نتیجتاً لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق اسٹالن گراڈ کے محاذ پر لگ بھگ بیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے، جن میں فوجی اور شہری سب ہی شامل تھے۔یہ جنگ، جنگوں کی تاریخ کی سب سے خون آشام جنگ میں شمار ہوتی ہے۔
لیکن اصل میں یہی مرحلہ دوسری عالمی جنگ کاٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ 1943 ء کے بعد ہٹلر کی فوجیں شکست کھاتی چلی گئیں۔ ان کا مورال ڈاؤن ہوا اور ان کو اپنی واضح شکست نظر آنے لگی۔ یہاں تک کہ بالآخر ڈنکرک کے مقام پر وہ سب کچھ ہار بیٹھے۔ جب اتحادی فوجوں نے یوروپ پر چڑھائی اور جرمنی پر قبضہ کر لیا، تو رْوس نے اسٹالن گراڈ میں سردی کو جرمن فوج کے خلاف ایک زبردست جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور کام یاب بھی رہا، اسی لیے آج تک جنگوں میں کودنے والی فوجیں، سردیوں، خاص طور پر وسطی ایشیا اور یوروپ کی سردی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں، کیوں کہ سرما کی جنگ میں ہتھیاروں کے وار سے زیادہ سردی کی کاٹ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ آج اسٹالن گراڈ کو ”ولوگراڈ“ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ آج تک دریائے وولگاپر واقع سب سے اہم صنعتی و مواصلاتی مرکز ہے۔
اب اگر بات کریں موجودہ صورتِ حال کی، تو روس، یوکرین جنگ جاری ہے۔ یہ دوسرا موسمِ سرماہے، جس کاسامنا یوکرین اور یوروپ کو اس جنگ میں کرنا پڑ رہا ہے۔ بہت سے فوجی ماہرین اور تھنک ٹینکس کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن کی فوجی حکمتِ عملی بھی سردیوں کے گرد گھومتی ہے اور وہ اسے یوکرین کے عوام اور یوروپ کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں، پھر گیس اور تیل پر بھی ان کی مکمل اجارہ داری ہے، جو چالیس فی صد کے قریب یوروپی ممالک کو بھی سپلائی کیے جاتے ہیں۔
یہی گیس اور تیل ان کی صنعتوں اور ٹرانسپورٹ کو رواں اور علاقے کی یخ بستہ سردی میں گھروں کو گرم رکھتے ہیں۔ اسے یوروپی ممالک کی نادانی کہیں یا صدر پوٹن کی چال بازی کہ وہ اس تیل اور گیس کی جنگ کے خطرے کا پہلے سے تدارک نہیں کرسکے۔ اصل میں گلوبلائزیشن کے بعد دنیا اتنی قریب آگئی ہے کہ ملکوں کا انحصار غیرمعمولی طور پر ایک دوسرے پر اتنا بڑھ گیا کہ یہ تصور ہی ختم ہونے لگا کہ ہر چیز اپنے ملک میں پیدا کی جائے یا بنائی جائے۔اب جو چیز جہاں سے سَستی اور بہتر ملے،وہاں سے لے لی جاتی ہے۔
جاپان، چین، کوریا، یوروپ اور جنوب مشرقی ممالک نے یہی طرزِ عمل اپناتے ہوئے ترقّی کی معراج پائی۔ برطانیہ صنعتی ممالک کی فہرست سے نکل گیا،مانچسٹر جیسا ٹیکسٹائل کا حب ویران ہو گیا۔ آج یہ ممالک ٹیکنالوجی اور سروسز فراہم کرنے والے ملک بن گئے ہیں اور کم اجرت والے ممالک مال بنانے کی فیکٹریاں۔چین کی ترقّی اسی کم اجرت پالیسی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ لیکن خواہ صنعتیں ہوں یا ٹرانسپورٹ، توانائی بہرحال ان کا بنیادی جزو ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ گیس اور تیل آج کی دنیا کی ڈرائیونگ فورس ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔
عرب ممالک نے انہی قدرتی ذرایع سے دنیا جہاں کی دولت سمیٹی، جسے ”پیٹرو ڈالر“ کا نام دیا جاتا ہے۔ایران کا بھی یہی طرزِ عمل ہے، ذراغور کریں، قطر جیسا چھوٹا سا مْلک فیفاورلڈ کپ منعقد کروارہا ہے،جس پر220بلین ڈالرز لاگت آئی۔ہمارے ایک دوست، جو قطر میں انجینئر تھے، کہا کرتے تھے کہ ”قطر کی نالیوں میں بھی سونا بہتا ہے۔“یہی وجہ ہے کہ قطر کو دنیا کے اہم معاملات میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ افغان، دوحہ مذاکرات اور امریکہ کا افغانستان سے انخلا قطر کی ثالثی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔پھر یہ بھی یاد رہے کہ قطر کی ایل پی جی دنیا بھر میں درآمد کی جاتی ہے۔
یوکرین جنگ یوروپ کے مشرقی بارڈر پر لڑی جارہی ہے۔صدر پوٹن کا اصل ہدف تو یوکرین کو مفلوج کرکے اس کی فوجی طاقت کو ختم کرنا ہے، مگر اس کارروائی میں وہ یوروپ پر بھی ضرب لگا رہے ہیں۔ اسی لیے مغربی طاقتیں اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد یوروپ پر سب سے بڑا حملہ قرار دیتی ہیں۔ پوٹن کے مطابق یوکرین کا ناٹو سے ملنا روس کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ روس جیسا ملک یوکرین جیسے چھوٹے ملک کو اس بات کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں کہ اسے کس سے دوستی کرنی چاہیے اور کس سے نہیں۔
صدر پوٹن نے شروع ہی سے یہ حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے کہ وہ یوروپ کے خلاف توانائی کے دو اہم وسائل کو، جن پر اْن کا دارومدارہے،بھرپور ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔فروری کے مہینے میں یوروپ کا موسم سرد ترین ہوتا ہے اور روس نے یوکرین پر حملہ پچیس فروری کو کیا۔پھر جیسے ہی یوروپ اور مغربی ممالک نے روس پر پابندیاں لگائیں،تو اْس نے گیس اور تیل کی سپلائی گھٹانا شروع کردی۔ یوروپ میں فیکٹریاں بندہونے لگیں، لیکن یہ تو اْس سال کے شروع کا ٹریلر تھا۔
بعد میں توانائی کی قیمتیں اْس عروج پر جا پہنچیں کہ غریب تو غریب امریکہ اور چین جیسے ممالک بھی ہل کر رہ گئے۔ یوروپ نے فی زمانہ مہنگائی کی سب سے بلند لہر دیکھی۔ الیکشن پر اس کے اثرات مرتب ہوئے،حکومتیں عدم استحکام کا شکار ہوئیں۔سری لنکا تو دیوالیہ ہی ہوگیا، پاکستان سخت بحران سے گزر رہا ہے، لیکن تیسری دنیا کے ممالک کی لیڈر شپ نے وہ کام نہیں کیا، جو جی۔20، جی۔7 اور مغربی دنیا نے کیا، یعنی اپنی یک جہتی برقرار رکھی۔ترقّی یافتہ ممالک متبادل انرجی کے وسائل کی تلاش کے لیے عرصے سے سرگرداں ہیں۔
یوروپ میں جرمنی، فرانس، برطانیہ نے اس ضمن میں بہت کام کیا ہے۔اس لیے حالیہ موسمِ سرما میں وہ تیل، گیس کی قیمت تو کم نہیں کر پارہے، لیکن وہاں بحران بھی نہیں ہے۔ طالبان نے افغانستان میں اٹھارہ سالہ جدّوجہد میں کبھی موسمِ سرما میں حملے نہیں کیے۔ان کی جنگ صرف موسمِ گرما کے چھے ماہ تک محدود رہی اور اْس وقت تو وہ کام یاب ہوئے، لیکن فتح کے بعد جب سردی کا زمانہ بھگتنا پڑا تو اْن کے ہوش اْڑ گئے۔ صدر پوٹن بھی یہ چاہتے ہیں کہ یوروپ میں توانائی کی کمی رہے۔تیل اور گیس کی قیمتیں دنیا بھر میں بلند ترین سطح پر ہوں اور اس کے لیے وہ تیس فی صد سَستا تیل بیچنے کو تیار ہے۔اس طرح اْن کے دو جنگی مقاصد پورے ہورہے ہیں۔
یوروپ کی سردیاں سخت اور عوام پریشان، حکومتوں کو اپنی توجّہ عوام کو توانائی پہنچانے پر صرف کرنی پڑ رہی ہے، نتیجتاً یوکرین کے مسئلے سے توجّہ ہٹ رہی ہے۔اس طرح یوکرین کی امداد کم ہوگی، لیکن اس ضمن میں پوٹن کا ایک اندازہ غلط ثابت ہوا کہ جس ناٹو کو وہ ٹرمپ کے دَور میں بکھرتا محسوس کر رہے تھے، اْسے اْن کے یوکرین پر حملے نے سیسہ پلائی دیواربنادیا، یوکرین اور یوروپ پر حملے کے خلاف یک جان کردیا۔ماہرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ ٹرمپ جو بار بار ناٹو کو کم تر کرنے کی دھمکی دیتے تھے اور جسے انہوں نے حقیقت مان لیا تھا، درحقیقت وہ بھول گئے تھے کہ امریکہ محض وسطی ایشیا یا دوسرے یوروپی ممالک پر قبضے کا نام نہیں، بلکہ وہ دنیا کی سْپر پاور، مغرب کا لیڈر ہے، جس کی مضبوطی کوئی مانے نہ مانے، اْن کے جمہوری نظام میں ہے۔ وہاں بذریعہ ووٹ لیڈر بدل سکتے ہیں، مگر مْلک ٹوٹنا ناممکن ہے، کیوں کہ عوامی رائے شماری کا ایک طریقہ کار رکھتے ہیں۔کینیڈا میں فرانسیسی اکثریت والا علاقہ کیوبک ووٹ ہی سے علیحدہ ہوا اور اسی جمہوری طریقہ کار سے دوبارہ جُڑگیا۔
اسی طرح بریگزٹ ہوا اور کیا معلوم، یہ پھر ایک ہوجائیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ”پیرس معاہدے“ کے تحت کوئی مْلک مستقل کسی مْلک پر قابض نہیں ہوسکتا،نہ ہی اسے خودمیں ضم کرسکتا ہے۔امریکہ نے عراق اور افغانستان پرقبضہ کیااور پھر ہاتھ جھاڑکر ایسے چلا گیا، جیسے اس کا وہاں سے کچھ لینادیناہی نہیں تھا۔ لوگ بھلے فتح، شکست کے شادیانے بجاتے رہے، لیکن امریکہ صرف اپنے مفادات ہی کو ترجیح دیتا ہے۔اور یہ حالیہ امریکی مِڈٹرم الیکشن سے بھی ظاہر ہے کہ جس میں افغانستان کا ذکر تک نہیں۔یہ تو تیسری دنیا کے ملکوں اور لیڈروں کا کام ہے کہ وہ امریکی، روسی اور جانے کون کون سی سازشوں کا نام لے کر عوام کو مسلسل بے وقوف بنائے رکھتے ہیں۔اور عوام بھی اصل مسائل کی بجائے ایسے ہی احمقانہ ایشوز کو زندگی، موت کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔
صدر پوٹن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ سوویت یونین کی بحالی میں اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ ”رْوس نہیں، تو پھر یہ دنیا رہے یا نہ ر ہے کیا فرق پڑتا ہے“ حالاں کہ دنیا کی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بڑی بڑی سْپر طاقتیں آئیں، فتوحات حاصل کیں اور مٹ گئیں۔ سرحدیں رہتی ہیں، عوام بھی رہتے ہیں، لیکن ممالک کے نام بدل جاتے ہیں۔ کیا کل کا ہندوستان آج تین کا پاکستان، ہندوستان اور بنگلا دیش نہیں …؟؟ کیا ترک عثمانی سلطنت، دو درجن سے زیادہ ممالک میں تقسیم نہیں۔ کیا برطانیہ عظمیٰ آج ٹکڑے ٹکڑے نہیں۔ کیا جاپان کا امپیریل پاور ختم نہیں ہوچْکا۔ کل کے یوروپی ممالک، جو صدیوں سے جنگ لڑرہے تھے، آج یوروپی یونین نہیں۔دنیا بہت آگے بڑھ چْکی ہے۔
دوسری عالمی جنگ میں کمیونسٹ رْوس اور مغربی اتحادی ایک طرف اور جرمنی اور جاپان کی پاوَر دوسری طرف۔ آج جرمنی، جاپان اور امریکہ ایک، جب کہ سوویت یونین سرد جنگ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔کیا یوکرین کامسئلہ کوئی ایسا مسئلہ ہے، جس کا حل دنیا کی بڑی طاقتوں، خاص طور پر رْوس، امریکہ، چین اور یوروپ کے پاس نہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ اور پھر روس کے ٹوٹنے پر بھی تو ساتھ بیٹھے تھے، تو پھر یوکرین پرکیوں نہیں بیٹھ سکتے…؟؟ عالمی لیڈر شِپ کو سردی، گرمی، توانائی وغیرہ پر جھگڑے کی سیاست سے نکلنا ہوگا، جس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اب خواہ کسی بھی مْلک میں کوئی بھی نظامِ مملکت چلے، میڈیا اور انٹرنیٹ نے سب کو اس قدر قریب کر دیا ہے کہ آج ایک دوسرے سے دْور رہنا ممکن نہیں۔
امریکہ، چین، برازیل کا سامان ہر ملک میں آن لائن عام ملتا ہے، اب اصل مقابلہ جنگ کے میدان نہیں، پیداوار کی فیکٹریاں ہیں۔عوام معیارِ زندگی اور سہولتیں مانگتے ہیں، اب انہیں کسی دوسری تھیوری سے بہلایا نہیں جاسکے گا۔یوکرین کی جنگ، توانائی کی کمی یا زیادتی، سردیاں، گرمیاں آتی جاتی رہیں گی، لیکن اب دنیا کے عوام کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرناممکن نہیں رہا۔٭٭٭