
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
متذکرہ بالا قانون جس کے بارے میں اس سے قبل بحث کی جاچکی ہے‘ ایک زہرناک قانون ہے جس کے بل بوتے پر اور قانون کی آڑ میں موجودہ حکومت مالکینِ جائیداد کو ان کی جائیدادوں سے محروم کردینا چاہتی ہے۔ اس قانون کی قرار واقعی کوئی تشہیر نہیں ہوسکی جس کی وجہ شائد یہ ہوسکتی ہے کہ حکومتِ ہند نے صحافت (پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا) پر زورڈالا ہے کہ اس قانون کے بارے میں خاموشی اختیار کریں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ کسی بھی بڑے چیانل نے اس قانون پر نہ تو کوئی بحث کی اور نہ اس کی اشاعت کی۔ گودی میڈیا اس قانون کے بارے میں بالکل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اتنی اہم خبر کے لئے حیدرآباد کے کسی بھی اخبار میں کوئی جگہ نہ مل سکی البتہ ایک اردو چیانل نے اس قانون کے بارے میں ایک طویل خبر نشر کی تاہم اس چیانل کے روزنامہ میں اس انتہائی اہم خبر کی اشاعت نہ ہوسکی۔ جب اس خبر کو ایک کالم کی شکل میں شائع کیا گیا تو قارئین میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اس کالم کو ساری دنیا میں وائرل کیا گیا۔
چونکہ قانون کے بارے میں پہلے ہی لکھا جاچکا ہے لہٰذا اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں مرکزی حکومت کے جابراور آمرانہ رویہ کی وجہ سے ہندوستان کی صحافت خوفزدہ ہے اور انہیں خوف لاحق ہے کہ کہیں ہمارے بھی گھر اور آفس پر انکم ٹیکس ED اور دیگر اداروں کی جانب سے چھاپے نہ مارے جائیں اور غیر معلنہ آمدنی اور ٹیکس چوری کی علّت میں گرفتار نہ ہونا پڑے۔
حکومت اپنے ناقدوںکے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔ بعض سوشیل میڈیا پلاٹ فارمس کے ذریعہ اس بات کا اعلان ہوا کہ ان کو مرکزی حکومت نے نوٹس جاری کی ہے جس کا برملا اظہار 4PM کے ایڈیٹر نے مباحث کے دوران کہا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک انتقامی کارروائی میں کس طرح دنیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی یعنی بی بی سی کے دلی اور ممبئی دفاتر پر چھاپے مارے گئے۔ اس چیانل کا صرف یہی قصور تھا کہ گجرات کے مسلمانوں کے قتلِ عام کی ایک ڈاکیو منٹری نشر کی گئی تھی جس میںوزیراعظم اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو راست طور پر مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہوگئی تھی۔ لہٰذا اس ڈاکیومنٹری پر پابندی عائد کردی گئی اور ایک انتقامی کارروائی میں بی بی سی کے دو دفاتر پر انکم ٹیکس کے چھاپے مارے گئے اور ٹیکس چوری اور حسابات میں خردبرد کے الزامات عائد کئے گئے۔ مرکزی حکومت کے اس جابرانہ اقدام کے خلاف ساری دنیا کی صحافت بی بی سی کے دفاع میں کھڑی ہوگئی اور ساری دنیا میں اسی خبر کی نشر و اشاعت ہورہی ہے۔
اب اس بات میں کوئی بھی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں ہے کہ ہمارا ملک بڑی تیزی کے ساتھ ایک جمہوریت سے آمریت کی جانب گامزن ہورہا ہے۔ متذکرہ قانون جس کے ذریعہ پرائیوٹ جائیدادوں کی تفصیلات اور اس میں بے نامی جائیدادوں کو بے نقاب کرنے کا عمل جاری ہوگا اور ساری بے نامی جائیدادیں بحقِ سرکار ضبط کرلی جائیں گی۔ بے نامی جائیدادیں ایسی جائیدادیں ہوتی ہیں جو جائیداد کی قیمت ادا کرنے والا اپنے کسی رشتہ دار‘ دوست احباب کے نام پر خریدتا ہے۔ بے نامی قانون کے تحت ایسی جائیدادیں بے نامی جائیدادیں تصور کی جائیں گی جنہیں ضبط کرکے بے نامی دار پر مقدمہ چلایا جاتا ہے جس میں سزائے قید اور جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ قانون کی آر میں اپنے ہی شہریوں کو ان کی جائیدادوں سے محروم کردینا ایک کمیونسٹ حکومت ہی میں ممکن ہے۔ لیکن یہ کیسا کمیونزم ہے کہ جہاں ایک شخص کو اس کی جائیداد سے محروم کردیا جارہا ہے تو دوسری جانب بڑے بڑے سرمایہ کاروں(Corporates) کو کھلی اجازت دی گئی ہے کہ وہ جس قدر چاہیں ملک کی دولت کو لٹ لیں۔ چاہے وہ شیئرس کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کی صورت میں ہو یا بینکس ‘ لائنس انشورنس کارپوریشن سے بھاری ناقابل ادائیگی قرض کی صورت میں کیوں کہ آخرِ کار مرکزی حکومت کی یہی پالیسی ہے کہ ایسے سرمایہ کاروں‘ سرمایہ داروں کے تمام قرضوں کو ایک قلم کی جنبش سے معاف کردیں اور دوبارہ انہیں قرض حاصل کرنے کی اجازت دیں۔
اوائل سال2014ء میں رواں کالم کے ذریعہ ہم نے دو ا شاعتوں میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ آر ایس ایس نظریات کی حامل بھارتیہ جنتا پارٹی اور پارٹی کے سربراہ نریندر مودی اگر اقتدار میں آئیں گے تو ہندوستان کو نازی جرمنی کے طرز پر چلائیں گے کیوں کہ نازینظریہ اور آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریہ میں مکمل یکسانیت ہے کیوں کہ جہاں نازی پارٹی جرمن قوم کو دنیا پر حکمرانی کرنے کا حقدار سمجھتی تھی وہیں ہندوتوا نظریہ بھی اکھنڈ بھارت نظریہ کا حامل ہے جو ہندوستان‘ پاکستان‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش ‘ برما کو ایک اکائی کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے یعنی اکھنڈ بھارت۔ اس ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں مثلاً عیسائی‘ اور سیکھ برادری کو ہندوؤں کے برابر حقوق نہیں مل سکیں گے اور ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنادیا جائے گا جس طرح کہ یہودیوں کو نازی جرمنی میں بنادیا گیاتھا۔ ہم نے سخت وارننگ دی تھی جس میں نازی پارٹی اور اڈولف ہٹلر کے عروج کو بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی سے تقابل کیا تھا۔ قارئین اگر چاہیں تو مارچ اور اپریل2014ء کے روزنامہ منصف کے قانونی مشاورتی کالم کو Scan کریں اور خود پڑھ لیں کہ جو آج سے نو سال پہلے لکھا تھا آج حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
کل یعنی15فروری 2023ء کی شب 4PM نیوز پر اسی عنوان پر یعنی صحافت پر پابندی اور صحافیوں کے قید و بند پر بحث ہورہی تھی اور موجودہ حالات کا 1975ء کی ایمرجنسی جیسے حالات سے تقابل کیا جارہا تھا اور اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ بہت جلد تمام یوٹیوب چیانلس کو بند کردیا جائے گا اسی دوران چیانل کے ایڈیٹر نے کہا کہ مجھے آج بھی ایک نوٹس ملی ہے ۔ گویا لکھنے اور بولنے کی آزادی کو (Hijack) کیا جارہا ہے۔ اسی وقت ایک سینئر صحافی نے فیض احمد فیضؔ کی دورانِ قید لکھی گئی ایک نظم کے بند کو دہرایا
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پر مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
متذکرہ قانون کے ذریعہ موجودہ اور شائد آئندہ پانچ سالوں تک رہنے والی حکومت ہندوستانی عوام کو ان کی جائیدادوں سے محروم کرکے اور پھر جائیدادوں کا مالک بن کے جو کچھ بھی کرے گی اس کی تفصیل اس طرح ہوگی کہ جوں ہی جائیدادیں بے نامی قراردی جائیں گی‘ انہیں فروخت کردیا جائے گا اور اس طرح ملک کا خزانہ روپیوں سے لبریز ہوجائے گا اور اتنی دولت کی فراوانی ہوگی جس کے بل بوتے 180کروڑ فاقہ کشوں‘ غریبوں اور ناداروں کو پانچ کلو کے بجائے فی کس دس کلو اناج دے کر انہیں اپنا ووٹ بینک بنادیاجائے گا کیوں کہ ہندوستانیوں کی فطرت میں نمک حرامی نہیں ہے جس کا اظہار کئی مرتبہ غریب ووٹرس کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ایک ضعیف خاتون نے یو پی الیکشن کی تشہیر کے دوران کہا تھا کہ میں تو اپنا ووٹ مودی کو دوں گی کیوں کہ میں نے اس کا نمک کھایا ہے۔ اناج کی بوریوں پر مودی جی کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ اناج مودی جی نے بھجوایا ہے ۔ جب یہی اناج کی مقدار پانچ کلو سے بڑھ کر دس کلو فی کس ماہانہ ہوجائے گی تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مودی جی کے نمک حلالوں کی تعداد کتنی ہوگی جن کے ووٹس ہر الیکشن کا توازن بگاڑدیں گے۔ لہٰذا اسی قیاس کے زیر اثر ہم نے اوپر لکھا کہ آئندہ بھی مودی جی ہی 2024ء تا 2029ء ملک کے وزیراعظم ہوں گے اور پھر اس کے بعد اقلیتوں‘ صحافت ‘ آزادیٔ خیال اور آزادیٔ تحریر کا کیا حال ہوگا؟
متذکرہ زیر بحث قانون کے بارے میں اب صرف یہ کہا جاسکتا ہے جو بھی دفاعی اقدامات کرنے کی سابقہ اشاعتوں پر رائے دی گئی تھی ان پر مالکینِ جائیداد سختی سے عمل کریں اور اپنی جائیدادوں کو اپنے ورثاء میں بذریعۂ ہبہ تقسیم کردیں۔ بعد کا اللہ مالک ہے۔
بابری مسجد مقدمہ کا عجیب و غریب فیصلہ
کوئی نہیں جانتا فیصلہ کس جج نے لکھا ہے
ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے جب فیصلے صادر ہوتے ہیں اور جب ججس کی تعداد دو سے زیادہ ہو یعنی 7-5-3-2 تو فیصلہ صرف ایک جج لکھتا ہے اور اگر دوسرے ججس فیصلہ لکھوانے والے جج کی رائے سے متفق ہوں تو آخر میں I Agree لکھتے ہیں یعنی اس فیصلہ سے اتفاق رکھتا ہے لیکن یہ زائد از دیڑھ سو سالہ اصول ہے کہ جب فیصلے لکھے جاتے ہیں تو شروع میں لکھا جاتا ہے ۔ (Judgment Per —– Judge) یعنی اس فیصلہ کو فلاں جج نے لکھا ہے اور دیگر تمام ججس نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا ہے۔ یہ طریقہ نہایت قدیم ہے لہٰذا فیصلہ لکھنے والے جج کے نام کا لکھنا ایک لازمی امر ہے۔
لیکن بابری مسجد فیصلہ کے اختتام پر پانچوں ججوں کے دستخط ہیں لیکن یہ بات نہیں بتائی کہ کس جج نے یہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے ۔ یعنی فیصلہ کس جج نے لکھا ہے۔
یہ فیصلہ اور اس میں فیصلہ صادر کرنے والے جج کے نام کا افشاء نہ کرنا ایک قدیم روایت سے انحراف ہے۔
جن ججوں نے یہ کارہائے نمایاں انجام دیا انہیں انعام و اکرامات سے نوازاگیا۔ وظیفہ کے فوری بعد چیف جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کا رکن مقرر کیا گیا ‘ ایک اور جج کو اپیلیٹ ٹریبونل کا سربراہ بنایا گیا اور حالیہ دنوں میں جسٹس عبدالنذیر کو آندھرا پردیش ریاست کے گورنر کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔
یہ ترغیبات دراصل ظاہر کرتی ہیں کہ اگر آپ نے ہمارے مطلب کے فیصلے صادر کئے تو آپ کو انعام و اکرام سے سرفراز کیا جائے گا ورنہ آپ کو اسی پنشن پر گزارہ کرنا پڑے گا جس کے آپ حقدار ہیں۔
بابری مسجد کا فیصلہ انصاف کا قتل ہے اور انصاف کے قتل کے بدلے ججوں کو عہدوں سے سرفراز کرنا انصاف کا دوہرا قتل ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آرٹیکل 370اور 35-A کو چیلنج کرنے والی رٹ درخواستیں آج بھی سپریم کورٹ کے برفدان میں رکھی ہوئی ہیں۔ پتہ نہیں یہ برف کب پگھلے اور اگر کبھی پگھلے بھی تو فیصلہ کیا ہوگا ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔
قصہ مختصرعدلیہ ۔ صحافت اور مقننہ تمام پر عاملہ غالب آچکا ہے۔ جس کے بارے میں یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہم اب ایک جمہوریت میں نہیں بلکہ آمریت میں رہتے ہیں پتہ نہیں کب ہمارے بنیادی حقوق سلب کرلئے جائیں۔ کب بولنے اورلکھنے کی آزادی ختم کردی جائے۔ کب ایک خاص طبقہ کا ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے ویسے 80فیصد ووٹرس کی جھولی اناج سے بھرچکی ہے۔ انہیں صرف اپنے پیٹ کی پڑی ہے۔ آزادی ۔ عزت۔ حرمت ۔ کی کوئی اہمیت نہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰