بھارت

تمام سیاسی پارٹیوں کی متفقہ پالیسی”مسلمانوں کو اپنے پیروں پر کھڑانہ ہونے دو“۔مولانا ارشدمدنی

عصری تعلیم کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند عصری تعلیم کی ہرگزہرگز مخالف نہیں ہے، قوم کو جہاں علماء فضلاء کی ضرورت ہے وہیں اسے ڈاکٹروں، انجینئروں اورسائنس دانوں کی بھی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دینی تعلیم کو لازمی تصورکرتی ہے۔

نئی دہلی: عصری تعلیم کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند عصری تعلیم کی ہرگزہرگز مخالف نہیں ہے، قوم کو جہاں علماء فضلاء کی ضرورت ہے وہیں اسے ڈاکٹروں، انجینئروں اورسائنس دانوں کی بھی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دینی تعلیم کو لازمی تصورکرتی ہے۔

متعلقہ خبریں
نوح فساد معاملہ:مزید پانچ مسلم نوجوانوں کو سیشن عدالت نے ضمانت پر رہاکرنے کا حکم جاری کیا

یہ بات انہوں نے آج یہاں جمعیۃعلماء دہلی وہریانہ صوبوں کے ضلعی صدور، نظمااور ارکان مرکزیہ کا ایک روزہ تربیتی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ہماراموقف، ہماری سیاست، ہماری کارکردگی پوری طرح ہمارے اکابرین کی مرہون منت ہے اوراسی کو ہم اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں، ان کے طریقہ کارسے ہٹ کر کوئی نیاطریقہ کاراختیارکرنا ہم جماعت کے لئے مفید نہیں سمجھتے۔انہوں نے زوردیکر کہاکہ ہمارے اکابربھی علوم عصریہ کے مخالف نہیں تھے، حالانکہ یہ سب کے سب عالم اورعلوم نبوت کے ماہر تھے، ملک کی آزادی کے لئے انہوں نے انگریزوں کے خلاف طویل جدوجہد کی اورجان ومال کی قربانی بھی دی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ انگریزی تعلیم کے خلاف نہیں تھے، چنانچہ جب ملک آزادہواتوجمعیۃعلماء ہند کی قیادت نے مدارس اوراسکولوں کے قیام کے لئے باضابطہ طورپر ایک ملک گیر تحریک چلائی کیونکہ وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ قوم کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارابھی موقف یہی ہے کہ علوم عصریہ بھی ہمارے لئے ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم وہ اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارابچہ ڈاکٹرانجینئر بن گیا ہے تو اسے اتنی دینی تعلیم توہونی ہی چاہئے کہ وہ آخری وقت میں کلمہ پڑھ سکے۔ انہوں نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہارکیا کہ عصری تعلیم کے تعلق سے جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں میں جو شعورہے وہ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں نہیں ہے، ہم شادی بیاہ اوردوسری خرافات والی چیزوں پر تولاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن اسکول وکالج کھولنے کے بارے میں نہیں سوچتے، ایسا نہیں ہے کہ جنوب کے مقابلہ شمالی مسلمانوں کے پاس سرمایہ کی کمی ہے، درحقیقت ان کے اندرشعورنہیں ہے جس کو پید اکرنے کی اب اشدضرورت ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں مسلم لڑکیوں سے ہندولڑکوں کی شادیوں کے افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں یہ بلاسبب نہیں ہے بلکہ فرقہ پرستوں کاایک ٹولہ منظم طورپراس کی پشت پناہی کررہاہے کہ مسلم بچیوں کومرتددبنایاجائے، انہوں نے آگے کہا کہ اس کو لیکر فرقہ پرستوں نے جو پروپیگنڈہ کیا اس کے دباؤمیں لوجہاد کی خود ساختہ اصطلاح کے خلاف بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں قانون بھی بنادیا گیا، لیکن اس کے نفاذمیں بدترین امتیازبرتاگیا، اگر کسی مسلم لڑکے نے اس طرح کی بدبختی کی تو اس کے پورے خاندان کو اٹھاکر جیل بھیج دیا گیا، لیکن جب اس طرح کی حرکت کسی ہندولڑکے نے کی تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ انتظامیہ کے لوگوں نے اس کی پشت پناہی کی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اس کا توڑیہ ہے کہ مسلمان لڑکوں اورلڑکیوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے کھولیں، جہاں محفوظ دینی ماحول میں قوم کے بچے اوربچیاں تعلیم حاصل کرسکیں، انہوں نے کہا کہ اگر ابھی کچھ نہ کیا گیا تو دس سال بعد یہ صورتحال دھماکہ خیز بھی ہوسکتی ہے، اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ آپ اس امیدپر ہرگزنہ رہیں کہ سرکاریں آپ کے لئے کچھ کریں گی، کیونکہ 1947سے ہی تمام سیاسی پارٹیوں میں گھسے ہوئے فرقہ پرست لوگوں کی متفقہ پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پیروں پر کھڑانہ ہونے دیں، یہ ہی وجہ ہے کہ آزادی کے75سال بعد بھی مسلمان ملک کی سب سے پسماندہ قوم ہیں، یہاں تک کہ وہ ہر شعبہ میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد ارباب اقتدار کی ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیمی اورمعاشی میدان سے باہر کردیا سچرکمیٹی کی رپورٹ اس کی شہادت دیتی ہے اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں۔ انہوں نے قوم کے بااثرافرادسے یہ اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ لڑکے اورلڑکیوں کے لئے الگ الگ ایسے اسکول وکالج بنائیں جہاں وہ دینی ماحول میں آسانی سے تعلیم حاصل کرسکیں۔

آج مسلمانوں میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں ہیں، ان میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھا ہے ناموافق حالات میں بھی قوم نے زندہ رہنے اورآگے بڑھنے کا حوصلہ نہیں چھوڑالیکن آج بھی شمالی ہندوستان میں اچھے اورمعیاری تعلیمی اداروں کی کمی ہے اس لئے میں کہتاہوں کہ عصری تعلیم کے لئے عصری اسکول وکالج بھی ضروری ہیں، آپ کے پاس وسائل نہیں ہیں کوئی بات نہیں کسی جھوپڑی میں بچیوں کے لئے اسکول کھول دیں آپ اگر ایساکریں گے تویہ ثابت کردیں گے کہ آپ کے اندرقومی شعورہے اورآپ ایک زندہ قوم ہیں، ایسا نہیں کریں گے تو مردہ ہوجائیں گے۔مولانا مدنی نے صاف لفظوں میں کہا کہ مسلم فرقہ پرستی ہویا ہندوفرقہ پرستی جمعیۃعلماء ہند ہر طرح کی فرقہ پرستی کے خلاف ہے کیونکہ یہ ملک کے اتحادوسلامتی کے لئے تباہ کن ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ آزادی کے بعد جب مذہب کی بنیادپر ملک کوتقسیم کرنے کی بعض لوگوں کی طرف سے سازش ہوئی تواس کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز جمعیۃعلماء ہند کی تھی۔ ہمارے بزروگوں کا نظریہ یہ تھا کہ جب ہم اس ملک میں تیرہ چودہ سوبرس سے محبت اور اخوت کے ساتھ رہتے آئے ہیں تواب آزادی کے بعد ہم ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہی نظریہ جمعیۃعلماء ہند کا آج بھی ہے ہمارامانناہے کہ محبت واخوت اوربھائی چارہ سے ہی یہ ملک زندہ رہ سکتاہے اورآگے بڑھ سکتاہے ورنہ آج نہیں توکل اورکل نہیں توپرسوں یہ تباہ وبربادہوجائے گا۔ فلسطین اوراسرائیل کی تاریخ کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ اسرائیل ظالم اورغاصب ہے، اورفلسطین کے لوگ اپنے ملک کو غاصبوں سے آزادکرانے کے لئے ٹھیک ویسے ہی جنگ لڑرہے ہیں جیسی جنگ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزادکرانے کے لئے ہمارے علماء اور مہاتماگاندھی، سبھاش چندربوس اوربھگت سنگھ وغیرہ نے لڑی تھیں۔ انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے، آپ جہاں ہیں وہیں کام کریں اورجو کچھ کریں مذہب سے بالاترہوکر کریں، آپ ہندووں سے میل جول بڑھائیں ان کو اپنے یہاں بلائیں ان کے یہاں جائیں اس لئے کہ قریب آکر ہی وہ غلط فہمیاں دورکی جاسکتی ہیں جو فرقہ پرستوں نے ان کے ذہنوں میں بھردی ہیں۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ آپ جوبھی فلاحی کام کریں اس میں مذہب دیکھے بغیر ہر ضرورت مندکو شامل کریں جمعیۃعلماء ہند کا روزاول سے یہی موقف رہاہے اوراب بھی ہے، فرقہ پرست نفرت پھیلاکر اپنی کرسی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں آپ اس سازش کو اپنے کرداروعمل سے ناکام بنادیں اورانہوں نے ہندووں اورمسلمانوں کے درمیان جو دوری پیداکی ہے اسے اپنی محبت سے قربت میں بدل دیں۔پروگرام میں جمعیۃعلماء ہند کے ناظم عمومی مفتی سید معصوم ثاقب،مولانا محمد مسلم قاسمی صدرجمعیۃعلماء دہلی، مولانا محمد ہارون قاسمی صدرجمعیۃعلماء متحدہ پنجاب، مفتی عبدالرازق ناظم اعلیٰ جمعیۃعلماء صوبہ دہلی، مولانا سیدازہرمدنی ناظم اصلاح معاشرہ جمعیۃعلماء ہند، مولانا حکیم الدین ہریانہ، مولانا محمد عمرصدرجنوب دہلی، مولانا محمد انتظارحسین صدرضلع چاندنی چوک، مولانا محمد الیاس امیرشریعت متحدہ پنجاب، مفتی نظام الدین نائب صدرجمعیۃعلماء دہلی، قاری دلشادقمرجمعیۃعلماء دہلی،مولانا محمد فرقان قاسمی خازن جمعیۃعلماء دہلی وغیرہ معززعلماء کرام وذمہ داران جمعیۃعلماء شامل تھے۔