مضامین

قرآنی المَنّ(و سلویٰ): ایک سائنسی جائزہ

منّ کا ذکر قرآن پاک میں تین مرتبہ کیا گیا ہے اس کی بابت زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ کوئی غیر طبعی چیز نہ تھی بلکہ پودوں سے حاصل کردہ ایک شئے تھی جو بہت شیریں اور لذیذ تھی۔

از۔ ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

قرآنی نام:  اَلمَنّ

دیگر نام: MANNA (انگریزی، یونانی، اطالوی) MANNE (فرانسیسی) MANNA (روسی) ترانگبین، ترنجبین، گزانگبین، گزنجبین (فارسی) کزنجبین، ترنجبین (عربی و اردو) ترنجبین (اردو، پنجابی) شیری (ہندی)، مینا(تامل تلگو) مَنا(ملیالم)۔

نباتاتی نام:

(1) AlhagimaurorumMedic (Family: Leguminosae)

(2) Tamarix mannifera Bunge (Family: Tamaricaceae)

قرآنی آیات بسلسلۂ منّ :

(1) سورۃ البقرۃ II۔ آیت نمبر: 57

ترجمہ: ہم نے تم پر ابرکا سایہ کیا۔ منّ و سلویٰ کی غذا تمہارے لئے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں کھاؤ مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا ہو ہم پر ظلم نہ تھا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیا۔

(2) سورۃ الاعراف VII۔ آیت نمبر: 160

ترجمہ: اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کرکے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی اور جب موسیٰ سے ان کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کرلی۔ ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور ان پر منّ و سلویٰ اتارا۔ کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تمہیں بخشی ہیں مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرتے رہے۔

(3) سورہ طٰہ XX۔ آیت نمبر: 80

ترجمہ: اے بنی اسرائیل ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی اور طور کی دائیں جانب تمہاری حاضری کے لئے وقت مقرر کیا اور تم پر منّ و سلویٰ اتارا۔

منّ کے لفظی معنی یوں تو احسان اور انعام کے ہیں لیکن اصلاحی معنوں میں وہ ایک قسم کا شبنمی گوند ہے جس کو اللہ تعالیٰ صحرائے سینا میں بھٹکنے والے اسرائیلیوں کے لئے غذا کے طور پر نازل فرماتا تھا۔ یہ گوند درختوں کے پتوں پر جمع ہوجاتا تھا اور بنی اسرائیل روز اسے اکٹھا کرکے کھاتے۔

یہ واقعہ 1451 قبل مسیح کا ہے جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے اپنی قوم کے کئی لاکھ افراد کو فرعون کے پنجۂ ظلم سے نجات دلاکر سینا کے علاقے میں لے آئے تاکہ انہیں کنعان پہنچایا جاسکے۔

منّ کا ذکر قرآن پاک میں تین مرتبہ کیا گیا ہے اس کی بابت زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ کوئی غیر طبعی چیز نہ تھی بلکہ پودوں سے حاصل کردہ ایک شئے تھی جو بہت شیریں اور لذیذ تھی۔

مولانا عبدالماجد دریابادی کی رائے میں منّ ایک قدرتی غذا تھی جو بنی اسرائیل کو سینا کی مسافرت کے دوران بلا مشقت و تعب مل جاتی تھی۔

وہ یہ بھی فرماتے ہیں (نوٹ نمبر 210) کہ:

’’انزل سے مراد لازمی طور پر یہ نہیں ہوتی کہ وہ چیز کسی معجزانہ طریقہ پر اُتری ہو۔‘‘

مولانا نے مزید فرمایا ہے کہ اکثر لوگوں کے خیال میں ”منّ“ ترنجبین کے مرادف ہے۔

موضع القرآن میں منّ و سلویٰ کی بابت کہا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل فرعون سے نجات پاکر سینا کے جنگل میں داخل ہوئے تو اُن کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ اس وقت ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ”منّ“ فراہم کیا جو دھنیا کے مانند ایک میٹھی شئے تھی اور سلویٰ نازل کیا جو ایک پرندہ (بٹیر) کا نام ہے جسے وہ لوگ پکڑ لیتے اور کباب کرکے کھاتے تھے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے خیال میں منّ درخت کا شیرہ ہے جو گوند کی طرح جم جایا کرتا تھا، خوش ذائقہ اور مقوی باہ ہوتا ہے۔ علامہ محمد ثناء اللہ عثمانی فرماتے ہیں کہ منّ سے مراد ترنجبین ہے اور سلویٰ سے مراد ایک پرندہ ہے جو بٹیر کے مشابہ ہوتا ہے۔

تفسیر حقانی، (تفہیم القرآن، تفسیر عثمانی) اور بیان القرآن میں بھی منّ کو ایک شیریں گوند نما شئے ہی بتایا گیا ہے۔ لیکن اس پودہ کی نشاندہی نہیں کی گئی جس سے یہ گوند (منّ) حاصل ہوتا ہو یا جس پر یہ جم جاتا ہو۔ جناب عبد اللہ یوسف علی نے اپنی انگریزی تفسیر میں ضرور تحریر فرمایا ہے کہ ”منّ“ کا ذریعہ ٹمارکس نام کے پودے ہوا کرتے تھے۔ (نوٹ نمبر71)

مختلف تفاسیر کی روشنی میں یہ بات تو یقیناً واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ منّ ایک نباتاتی چیز تھی لیکن یہ کس پودے سے حاصل ہوتی تھی اور اس کی کیمیاوی ہیئت کیا تھی، یہ تفصیلات عام طور سے تفسیروں میں نہیں ملتی ہیں۔

ابوریجان محمد ابن البیرونی (1050ء – 973ء) نے غالباً پہلی بار اس رائے کا اظہار کیا کہ ”حاج“ نامی پودے سے حاصل کردہ گوند بنام ترنجبین کواصلی منّ کا مترادف کہا جاسکتا ہے۔ تُرنجبین فارسی لفظ ترانگبین کا بگڑا ہوا رُوپ ہے۔ انگبین فارسی میں شہد کو کہتے ہیں گویا کہ ترانگبین وہی چیز ہے جس کو انگریزی میں Honey Dew کہا جاتا ہے۔ اس طرح ”حاج“ سے نکلا ہوا گوند بھی شہد کے مانند میٹھا اور مفید سمجھا گیا۔

البیرونی کی تحقیقات کے بعد کئی صدیوں تک کوئی سائنسی جائزہ ایسا نہیں لیا گیا جس سے سینا اور عرب کے دوسرے علاقوں کے نباتات کی بابت صحیح معلومات فراہم ہوتیں۔ 1822ء میں برکھارڈ نامی سائنسداں نے (جو بعد میں مصر میں شیخ برکات کے نام سے مشہور ہوا)، اپنی کتاب Travelsin Syria and Holy Land میں لکھا ہے کہ منّ کی پیداوار کے ذمہ دار کچھ خاص قسم کے کیڑے ہوتے ہیں جو بعض درختوں کی چھال میں سوراخ کردیتے ہیں اور ان سے شدید گرمی کے دوران ایک رطُوبت نکلتی ہے جو رات کی ٹھنڈک میں درختوں پر جم جاتی ہے۔

برکھارڈ کے خیال کو تقویت اس وقت ملی جب 1829ء میں اہرن برگ اورہیم پریش نامی سائنسدانوں نے ایک رپورٹ شائع کی اور بتایا کہ Cocus manniparus  نام کا کیڑا صحرائے سینا کے ٹمارکس نامی پودوں پر پایا گیا جو منّ کی پیداوار کا ذمہ دار تھا۔ گویا کہ انیسویں صدی کے نصف ہی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ سیناء کے درختوں پر منّ پیدا ہوتا ہے جو بہت شیریں ہوتا ہے۔ اس کے کچھ بعد ہی اس امر کا بھی علم ہوا کہ اس علاقے میں بسنے والے لوگ ان پودوں سے نکلے ہوئے گوند (منّ) کو مٹھائی کے طور پر کھاتے ہیں۔

آج تک ہوئی تحقیقات کی بنیاد پر یہ بات کسی حد تک یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جس منّ کا تذکرہ قرآن حکیم میں کیا گیا ہے وہ دو قسم کے پودوں سے حاصل ہوتا ہے، ایک تو وہ ہے جس کو عربی میں ”الحاج“ یا ”عاقول“ کہتے ہیں، اس کا نباتاتی نام Alhagi maurorum  دیا گیا ہے، یہ خاردار پودا ہوتا ہے اور عرب کے علاقوں میں اونٹ کی اچھی غذا ہے لہٰذا ”شوک الجمل“ بھی کہلاتا ہے۔

فارسی میں اسے خارش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ چھوٹی چھاڑیوں کی شکل میں پایا جاتا ہے اور عموماً تین فٹ سے زیادہ بلندی نہیں پاتا ہے گوکہ اس کی جڑیں زمین میں دس پندرہ فٹ تک جاتی ہیں۔ یہ عرب کے علاوہ ایران، افغانستان اور ترکی میں بکثرت پایا جاتا ہے لیکن ”منّ“ کی پیداوار کے اعتبار سے ایران کا علاقہ خراسان ہی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں کے پودوں سے حاصل کیا گیا منّ، جوتر نجبین کہلاتا ہے، دنیا کے بازاروں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔

ہندوستان میں ”الحاج“ کی جنس کا ایک پودہ کافی پایا جاتا ہے جس کو ”جواسا“ کہتے ہیں لیکن اس میں منّ پیدا نہیں ہوتا، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان پر وہ کیڑے نہیں پائے جاتے ہیں جو میٹھی رطوبت کی پیداوار کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

’’حاج‘‘ کے علاوہ ایک اور دوسرا پودا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں صحرائے سینا میں بڑی تعداد میں ملتا تھا اور جو اب بھی وہاں کسی قدر پیدا ہوتا ہے، وہ ’’طرفا‘‘ نامی پودا ہے جس کو نباتاتی سائنس کے اعتبار سے Tamarix mannifera  نام دیا گیا ہے۔

یہ عربی میں ”طرفا“ کے علاوہ غاز اور فارسی میں ”گاز“ نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اسی نسبت سے اس سے نکلا ہوا شیریں گوند گزانگبین، کزانجبین یا غزانگبین کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں ”طرفا“ کی جنس کا ایک دوسرا پودا بنام ”جھاؤ“ دستیاب ہوا ہے، اسے Tamarix gallica کہتے ہیں لیکن ان میں ”منّ“ کبھی بھی نکلتے نہیں دیکھا گیا ہے۔

’’حاج‘‘ اور ”طرفا“ سے پیدا شدہ منّ کی تجارت آج کے دور میں بھی کسی حد تک ہوتی ہے۔ گنے کی شکر عام ہوجانے کی بنا پر ان دونوں اقسام کے شیریں منّ کا استعمال مٹھائی بنانے کے کام میں تو نہیں ہوتا ہے لیکن طبی اہمیت کی بنا پر یونانی طریقہ علاج میں اس کا استعمال ہنوز باقی ہے۔ یہ انتہائی فرحت بخش ہوتے ہیں معدہ اور دل کو تقویت پہنچاتے ہیں۔

قرآن کریم میں تینوں مرتبہ منّ کا ذکر سلویٰ یعنی بٹیر کے ساتھ ہوا ہے اور دو آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ”ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا۔“ گویا کہ حضرت موسیؑ کی قوم کو مٹھائی اور بٹیر کے گوشت سے نوازا گیا جو ہر اعتبار سے ایک مکمل غذا تھی، ورنہ صرف شیریں چیز کھا کر کئی لاکھ افراد برسہا برس تندرست زندگی نہ گزارسکتے۔“

”ابرکا سایہ“ کرنے کا قرآنی حوالہ بھی بہت معنی خیز ہے۔ گویا کہ ریگستانی علاقے کے لاکھوں اشجارجو منّ پیدا کرتے تھے، وہ سایہ دار نہ تھے۔ واضح رہے کہ ”حاج‘‘ کا پودہ ایک چھوٹی سی جھاڑی کے مانند ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے سایہ دینے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا“۔ ”طرفا“ بھی ایک چھوٹا درخت ہوتا ہے جس کی پتیاں باریک ہوتی ہیں اور سایہ فراہم نہیں کرتیں۔

چنانچہ سیناء کے بیابان و ریگستان میں ان پودوں کی تعداد بہت ہوگی لیکن سایہ کے اعتبار سے بیکارِ محض‘ مزید برآں یہ پودے خاص طور سے ”حاج“ کے جھاڑی دار پودے سلویٰ یعنی بٹیر یا بٹیروں کی قسم کے پرندوں کی افزائش کے لئے نہایت موزوں پودے رہے ہوں گے۔

منّ کا ذکر بائبل میں بھی کئی بار کیا گیا۔ 44، 45، 48 جس کے متعلق مولڈنکے نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ صرف شیریں گوند ہی نہ تھا بلہ کچھ خاص قسم کی لائی کن (Lichen) اور الگی (Algae) کو بھی منّ کہا گیا تھا۔ ان کی نظر میں کتاب بروج میں جس منّ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یقیناً میٹھی شئے تھی لیکن کتاب خروج اور کتاب گنتی کے ابواب میں جس منّ کی بابت کہا گیا ہے کہ وہ آسمان سے برستی تھی، وہ کوئی شیریں چیز نہ تھی بلکہ ایک خاص قسم کی کائی تھی، جس کو سائنسی اصطلاح میں Lichen کہتے ہیں۔

یہ سوکھ کر زمین سے جدا ہوجاتی تھی اور تیز ہواؤں کی مدد سے فضا میں اڑتی ہوئی دور دراز کے علاقوں پر برستی (گرتی) تھی۔ بنی اسرائیل اس ”کائی“ کو اکٹھا کرلیتے اور پیس کر اس کی روٹیاں یا پھلکیاں پکاتے اور سیر ہوکر کھاتے۔ مولڈنگے نے اپنے اس نظریہ کی وکالت میں 1854ء کے زبردست قحط کا تذکرہ کیا ہے کہ جب ایک زبردست ہوائی طوفان کی مدد سے Lecanora afinis نام کی لائی کن کئی سو میل کی دوری سے اڑتی ہوئی قحط زدہ علاقہ میں اس طرح برسی اور جمع ہوگئی کہ زمین پر اس کی تہیں جم گئیں۔ وہاں کے باشندوں نے جو، لائی کن کی غذائی خوبی سے خوب واقف تھے، خدا کی اس آسمانی رحمت و نعمت کا شکر ادا کیا اور اس کی روٹیاں کھا کر فاقہ کشی سے بچ گئے۔

مولڈنکے نے منّ کی ایک تیسری قسم بھی بیان کی ہے جس کو الگی (Algae) کہتے ہیں۔ یہ الگی رات میں شبنم کے ساتھ زمین پر نمودار ہوتی تھی اور صبح کو جمع کرلی جاتی تھی۔ جو بچ جاتی، وہ سورج کی گرمی کی تاب نہ لاکر ختم ہوجاتی تھی۔

مولڈنکے کے خیال میں منّ کا صرف میٹھی چیز ہونا اس لئے ممکن نہیں کیونکہ بیس لاکھ انسانوں کے لئے کم از کم دو ہزار ٹن منّ درکار ہوگا اور اتنی مقدار کسی ایک علاقہ سے حاصل کرنا ناممکن رہا ہوگا۔ مزید یہ کہ چالیس سال تک لائی کن کی شکل میں منّ کا تیز ہواؤں کی مدد سے متواتر مہیا ہونا بھی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔

اسی طرح الگی کے روپ میں منّ کا ہر موسم میں پیدا ہونا بھی قرین قیاس نہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر مولڈنکے نے اپنی رائے ظاہر کی کہ پورے امکانات اس بات کے ہیں کہ بنی اسرائیل منّ کے ساتھ بٹیروں کا گوشت بھی بھون کر کھاتے ہوں، کیونکہ وہ علاقہ بٹیروں کے لئے مشہور تھا۔

مولڈنکے نے اگر قرآنی آیات کا بھی مطالعہ کرلیا ہوتا تو ”منّ و سلویٰ“ کا نظریہ قائم کرنے میں دقت نہ ہوتی۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ قرآن شریف کے ارشادات سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں غذائی اشیاء (منّ و سلویٰ) اسرائیلیوں کے لئے عام تھیں لیکن یہ کسی اور غذا کی نفی کو مستلزم نہیں (تفسیر ماجدی)۔ چنانچہ ہوسکتا ہے کہ شیریں ”منّ“ یعنی ترنجبین کے علاوہ لائی کن اور الگی بھی ان کی غذا ہی ہو یا پھر اور بھی دوسری اشیاء جو اُن سفر میں میسر آتی ہوں۔

یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ہر وہ دکھنے والی شئے جسے انہوں نے پہلی بار صحراء سینا میں دیکھا ہو، اس کو انہوں نے ’منّ‘ کا نام دیا ہو کیونکہ سامی‘ عبرانی اورعربی‘ زبان میں منّ کے معنی ”کیا“ یا ”کون“ کے بھی ہیں۔ گویا کہ جب انہوں نے نئی چیز دیکھی تو حیرت سے کہا ”منّ“۔

رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کی روشنی میں بھی منّ کا ایک سے زیادہ قسم کی چیز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق آپ نے منّ کو ”الکمأۃ“ فرمایا ہے جس کے معنی اردو میں کمبھی اور انگریزی میں Mushroom کے ہیں۔ کچھ خاص قسم کی کمبھی کا غذائی طور پر استعمال بہت سے ممالک میں ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ سائنسی اعتبار سے کمبھی، لائی کن اور الگی کا قریبی تعلق ہے۔

مختصر یہ کہ بنی اسرائیل کیلئے برسہا برس جو غذا فراہم کی جاتی رہی، اس میں شیریں گوند، کمبھی، لائی کن (جو کاربوہائیڈریٹ کا ذریعہ ہیں) کے ساتھ بٹیریں (حیاتین اور چربی کا ذریعہ) شامل ہوتی تھیں جو سائنسی اعتبار سے ایک مکمل غذا ہے اور اسے کھا کر طویل عرصہ تک زندہ سلامت رہنا عین ممکن ہے۔

ترنجبین اور گزنجبین کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں درجنوں ایسے پودوں کی جنس (genus) اور ذاتیں (Species) پائی جاتی ہیں جن سے شیریں گوند حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ سب انگریزی اصطلاح میں Manna کہلاتے ہیں۔ مثلاً جنوبی یورپ کا مشہور پودہ Fraxinus ornus  ہے جس سے تجارتی منّ حاصل کیا جاتا ہے، اس کا اصل مرکز سسلی (Sicily) کا وہ پہاڑی خطہ ہے جو جبل منّ (Gibelman) کہلاتا ہے۔ کچھ سائنسدانوں نے اس منّ کو بھی بائبل کا منّ لکھا ہے۔

اسی طرح ایران میں Contoneaster nummularia نام کا پودہ چٹانوں پر پایا جاتا ہے جس سے بہت شیریں گوند نکلتا ہے اور چٹان پر ٹپک کر جم جاتا ہے، اسی لئے اسے ”شیٖرِخِشت“ یعنی پتھر کا دودھ کہتے ہیں۔ ایران ہی میں ایک اور منّ کی قسم پیدا ہوتی ہے جو Astragalus adscendens نامی پودوں پر ملتی ہے۔

اسی جنس کے پودے سے کتیرہ گونددستیاب ہوتا ہے۔ Quercus incana نام کا درخت بھی منّ کا ذریعہ ہے جو عراق میں کافی پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مدارCalotropis gigantea سے کسی زمانہ میں سُکر تِگال نامی منّ حاصل ہوتا تھا جو اب بازاروں میں کمیاب ہے۔

کچھ لوگ بانس کے درختوں سے حاصل کردہ شیریں بنس لوچن (اردو، تباشیر) کو بھی منّ کہتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ (آسٹریلیا میں ایک درخت کافی پایا جاتا ہے جس کا نام Mayoporum playtycarpum ہے۔ یہ بھی منّ کا خاصا اچھا ذریعہ مانا جاتا ہے، زیتون کے درختوں پر بھی منّ پایا گیا ہے۔

عام گوند خواہ ببول کے ہوں یا کتیرہ کے یا صُمغ عربی، میٹھے نہیں ہوتے ہیں اور کیمیاوی اعتبار سے Polysaccharide کے زمرہ میں آتے ہیں جب کہ منّ (ترنجبین، گزنجبین، شیرخشت وغیرہ) Monosaccharide کا ذریعہ ہوتے ہیں یعنی ان میں فرکٹوز (Fructose)، گلوکوز (Glucose)، ملی زی ٹوز(Melizitose)، ڈلسی ٹال (Dulcitol) اور مینی ٹال (Mannitol) نام کی شکر ہوتی ہیں۔ اس طرح گوند اور منّ دونوں ہی کاربو ہائیڈریٹ ہیں، لیکن غذائی اعتبار سے گوند کی خاص اہمیت نہیں ہے جب کہ منّ بنام ترنجبن میں بھر پور غذائیت پائی جاتی ہے۔

ارشادات رسولؐ بسلسلۂ منّ :

1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کمبھی (الکماۃ) منّ کا ایک حصہ ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے“۔ (راوی، حضرت جابرؓ۔ نسائی، راوی، حضرت ابوسعدخدریؓ، ابن ماجہ)

2: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: کہ کمبھی (الکماۃ) بھی منّ کی ایک قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے۔“ (راوی حضرت ابوسعید خدریؓ، بخاری، مسند احمد)۔

حالیہ تحقیقات بسلسلۂ منّ۔۔ عراق کے کرد علاقہ میں فی زمانہ منّ بڑے پیمانے پر اکٹھا کیا جاتا ہے، ریگستانی کمبھی (Truffles) کو مراکش اور مصر میں طرفا کا نام دیا گیا ہے، اس کی ایک قسم سعودی عرب اور عمان میں زبیدہ کہلاتی ہے جب کہ نبیبیا  میں نبا کا نام دیا جاتا ہے۔

نوٹ: مضمون نباتات قرآن (از ڈاکٹر اقتدار فاروقی) کے ابواب میں سے ایک ہے، پانچواں ایڈیشن 2019، سدرہ پبلشرز، لکھنؤ پیش لفظ: مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ۔

قابل قدر تبصرے:

قدر شناسی شہنشاہ مراقش: ایک مراسلہ

محترم ڈاکٹر فاروقی: السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

نباتات قرآن اور احادیث کی تصنیفات موصول ہوئیں، میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میں ان تصنیفات سے کتنا زیادہ متاثر ہوں۔ یہ آپ کی علوم قرآنی اور علم حدیث میں دلچسپی اور ایمان کا نتیجہ ہی ہے کہ جس کی بنا پر آپ نے یہ عظیم کام انجام دیا ہے۔ میں آپ کی اچھی صحت کی دعا کرتا ہوں اور سائنسی تحقیق میں کامیابی کی امید رکھتا ہوں۔ فقط: شاہ محمد ششم، فرماں رواں اسٹیٹ آف مراقش۔ 3جون2010۔

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی: ڈاکٹر فاروقی نے علمی تحقیقی کام میں نہ صرف یہ کہ حصہ لیا بلکہ ایک نیا اور قیمتی کام پیش کیا۔ انہوں نے قرآن مجید میں مذکورہ پودوں کی ان خصوصیات کو بھی واضح کیا ہے جن سے قرآن مجید کے ان واقعات کی، جن کے ضمن میں ان پودوں کا ذکر آیا ہے، زیادہ بہتر تشریح و توضیح ملتی ہے۔ بعض پودوں کے تشخص میں انہوں نے کچھ نئی باتیں بتائی ہیں جن سے بعض گرہیں کھلتی ہیں اور بعض الجھنیں دور ہوتی ہیں۔ خاص طور پر سدر اور کافور کی وضاحت میں۔

مولانا محمد رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی صاحب نے قرآن مجید میں بتائی ہوئی متعدد اشیاء کے سلسلے میں بہت عالمانہ تحقیقات کی ہیں اور ایسی تحقیقات پیش کی ہیں جن سے قرآن مجید کی تفسیر کرنے والوں کی متعدد الجھنیں یکسر دور ہوجاتی ہیں۔

ڈاکٹر محمد عبدو یمنی، چیرمین اقرا انٹر نیشنل ایجوکیشنل فاؤنڈیشن، جدہ اور سابق وزیر حکومت سعودی عربیہ۔

 انتہائی اثر انگیز کتاب جس نے سینکڑوں سال کے خلاء کو پر کیا ہے اور وہ بھی بہترین انداز میں۔

a3w
a3w