شمالی بھارت

گیان واپی مسجد کیلئے انجمن‘ طویل قانونی لڑائی لڑنے تیار

انجمن انتظامیہ مساجد کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یٰسین نے کہا کہ ہائی کورٹ میں درخواست نظرثانی کب داخل کی جائے اس کا فیصلہ وکلاء کی کمیٹی‘ عدالت کے احکام کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کرے گی۔

لکھنو: ایودھیا فیصلہ نے مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں کئے ہیں اور وارانسی کی عدالت کے فیصلہ کے بعد وہ ایک اور قانونی لڑائی لڑنے کی تیاری کررہے ہیں چاہے وہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو۔ انجمن انتظامیہ مساجد وارانسی نے کہا ہے کہ وہ گیان واپی مسجد کیس میں الٰہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست نظرثانی داخل کرے گی۔

 گیان واپی مسجد‘ شرنگار گوری کیس کی 5 درخواست گزاروں میں ایک ریکھا پاٹھک پہلے ہی الٰہ آباد ہائی کورٹ میں کیوٹ داخل کرچکی ہے کہ انجمن انتظامیہ مساجد کو کسی بھی قسم کی ریلیف دینے سے قبل اس کے موقف کی سماعت ضرور کی جائے۔

انجمن انتظامیہ مساجد کے جوائنٹ سکریٹری ایس ایم یٰسین نے کہا کہ ہائی کورٹ میں درخواست نظرثانی کب داخل کی جائے اس کا فیصلہ وکلاء کی کمیٹی‘ عدالت کے احکام کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کرے گی۔ انجمن کے وکیل معراج الدین صدیقی نے کہا کہ ہم وارانسی کی عدالت کے فیصلہ کے خلاف الٰہ آباد ہائی کورٹ جائیں گے جس نے 1991کے مذہبی مقامات قانون‘ وقف ایکٹ 1995  اور یوپی کاشی وشواناتھ ٹمپل ایکٹ 1983 کو درکنار کردیا۔

انجمن نے کہا کہ وکلاء کی کمیٹی وارانسی کی عدالت کے فیصلہ کا جائزہ لے گی اور اس کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ انجمن کے ایک وکیل محمد توحید خان نے جو فیصلہ کا جائزہ لینے کے لئے بنی ٹیم میں شامل ہیں‘ کہا کہ ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کا آپشن ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

 ہماری ٹیم خاص طورپر اس بات کا جائزہ لے گی کی ہماری درخواست کس بنیاد پر مسترد ہوئی۔ سنی عالم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ مسلمان ضلع عدالت کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں لیکن ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا آپشن کھلا ہے۔

 ایودھیا کے دھنی پور گاؤں میں بابری مسجد کے عوض بننے والی مسجد کے ٹرسٹ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن(آئی آئی سی ایف) کے معتمد اطہر حسین نے کہا کہ عدلیہ پر بھروسہ رکھنے والے سبھی پابند ِ قانون شہریوں بشمول مسلمانوں کا ماننا ہے کہ 1991 کے قانون کا اطلاق یہ یقینی بنائے گا کہ مذہبی عبادت گاہوں کا موقف نہ بدلے اور جوں کا توں رہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ گیان واپی مسجد کیس میں ضلع عدالت کے فیصلہ کو مایوس کن قراردے چکا ہے۔ جنرل سکریٹری بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ 1991میں بابری مسجد تنازعہ کے بیچ قانون بنا تھا کہ 1947 میں عبادت گاہوں کا جو موقف تھا وہ برقرار رہے۔ صرف بابری مسجد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 1991کے اس قانون کو برقرار رکھا تھا لیکن ان  لوگوں نے جو نفرت پھیلانا چاہتے ہیں اور جنہیں ملک کے اتحاد کی پرواہ نہیں‘ گیان واپی مسجد کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ ضلع جج نے 1991 کا قانون درکنار کردیا۔ انجمن انتظامیہ مساجد نے طویل قانونی لڑائی کی تیاری کرلی ہے۔

a3w
a3w