بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ملازمتوں کے بیشتر تحفظات ختم کردیئے
سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر ایک بکتر بند گاڑی تعینات تھی اور فوجی ابھی بھی دارالحکومت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق حزب اختلاف کے کچھ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سڈھاکہ: بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اتوار کو ملک بھر میں تشدد کے بعد سرکاری ملازمتوں میں زیادہ تر تحفظات کو ختم کر دیا۔ ملک میں پرتشدد جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد مارے گئے۔ یہ اطلاع میڈیا رپورٹس میں دی گئی ہے۔
1971 میں پاکستان سے آزادی کی جنگ میں حصہ لینے مجاہدین آزادی کے رشتہ داروں کے لیے پبلک سیکٹر کی ایک تہائی ملازمتیں مختص تھیں، لیکن اب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ صرف پانچ فیصد نوکریاں مجاہدین آزادی کے رشتہ داروں کے لیے مخصوص کی جا سکتی ہیں۔ حکومت نے ابھی تک اس فیصلے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
مقامی میڈیا نے طلبہ گروپ کے ترجمان کے حوالے سے کہا کہ احتجاج جاری رہے گا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کرفیو کے دوسرے روز بھی دارالحکومت ڈھاکہ کی سڑکیں سنسان رہی تاہم بعض علاقوں میں چھٹ پٹ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر ایک بکتر بند گاڑی تعینات تھی اور فوجی ابھی بھی دارالحکومت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق حزب اختلاف کے کچھ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دیگر جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تشدد میں تقریباً 115 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جمعہ کو کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مقامی میڈیا کے مطابق عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق 93 فیصد پبلک سیکٹر کی ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر بھری جانی چاہئیں، جب کہ پانچ فیصد ملک کی جدوجہد آزادی کے سابق فوجیوں کے اہل خانہ کے لیے چھوڑ دی جانی چاہیے۔ باقی دو فیصد نسلی اقلیتوں یا معذور افراد کے لیے مختص ہیں۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے 2018 میں ختم کر دیا گیا کوٹہ سسٹم گزشتہ ماہ ایک نچلی عدالت نے بحال کر دیا تھا۔ اس فیصلے سے ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوا جس میں طلباء نے کہا کہ ریزرویشن امتیازی ہے۔ حکومت نے کرفیو اور مواصلاتی بلیک آؤٹ سمیت سخت کارروائی کی۔