جموں و کشمیر

بارہ مولہ پارلیمانی انتخابات :سال 1967کے بعد سب سے زیادہ ووٹنگ ریکارڈ، مجموعی شرح 59فیصد

جموں وکشمیر کی بارہمولہ لوک سبھا سیٹ پر ملی ٹینسی سے پہلے جیسا الیکشن جوش و خروش دیکھا گیا جب 59 فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی جو سال1967سے سب سے زیادہ ہے۔

سری نگر: جموں وکشمیر کی بارہمولہ لوک سبھا سیٹ پر ملی ٹینسی سے پہلے جیسا الیکشن جوش و خروش دیکھا گیا جب 59 فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی جو سال1967سے سب سے زیادہ ہے۔

متعلقہ خبریں
جموں و کشمیر میں اسمبلی الیکشن کب ہوگا، کانگریس کا سوال
اگزٹ پولس پر مکمل امتناع کے لئے سنجے سنگھ کا مطالبہ
حلقہ لوک سبھا نظام آباد سے تاحال 26 امیدواروں کے پرچے نامزدگی داخل
لوک سبھا الیکشن، جمعہ کو پولنگ کا پہلا مرحلہ
ایر فورس کے سابق سربراہ اور سابق ایم پی تروپتی بی جے پی میں شامل

اس سیٹ پر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ، پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون اور محبوس رکن قانون ساز انجینئر رشید کے درمیان کانٹے کی ٹکر متوقع ہے۔

اطلاعات کے مطابق بارہ مولہ پارلیمانی نشست کے 18حلقوں میں پیر کی صبح ووٹنگ شروع ہوئی اور صبح سات بجے سے ہی لوگوں کو لمبی لمبی قطاروں میں دیکھا گیا جو اپنی رائے دہی کا استعمال کرنے کی خاطر کافی پرجوش نظر آرہے تھے۔

بارہ مولہ لوک سبھا نشست پر سال 1996میں جب شور ش کا آغاز ہوا تھا توووٹنگ کی شرح 46.65فیصد درج کی گئی ، سال 2019کے لوک سبھا انتخابات میں 37.41فیصد، سال 2014میں 41.84فیصد سال 2009میں 41.84فیصد، سال 2004یمں 35.65فیصد، سال 1999میں 27.8فیصد اور سال 1998میں 41.49فیصد پولنگ ریکارڈ ہوئی تھی۔

سال 1984میں ملی ٹینسی کے ابتدائی ایام کے دوران بارہ مولہ پارلیمانی حلقے میں 61.09فیصد ووٹ پڑے تھے۔

سوپور قصبے کے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر ایک ووٹر طارق احمد نے کہا، "میں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ووٹ دیا کہ ہماری شناخت محفوظ رہے (2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کا حوالہ دیتے ہوئے)۔” "ماضی میں میں نے کبھی ووٹ نہیں دیا۔ اور مجھے یقین ہے کہ بائیکاٹ نے ہمیں بے اختیار کر دیا ہے اور میں زمین اور نوکریوں کو محفوظ بنانے کے لیے ووٹ دے رہا ہوں۔”

نامہ نگار نے بتایا کہ سوپور گورنمنٹ ڈگری کالج کے اندر واقع پانچ پولنگ اسٹیشنوں پر 4.30 بجے تک 4222 ووٹوں میں سے 1328 ووٹ پڑے تھے۔

48 سالہ ارشاد احمد نے کہا، ”پچھلے تین دہائیوں میں، میں نے کبھی کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا، لیکن آج میں اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کے لئے آیا ہوں۔“

ہندواڑہ میں، پی سی امیدوار سجاد لون کے آبائی قصبے میں، موڈ حوصلہ افزا تھا۔ یہ قصبہ روایتی طور پر ماضی میں ایک متاثر کن ووٹر ٹرن آوٹ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔

ایک خاتون ووٹر خالدہ نے کہا :”ہم نے 2002 کے انتخابات میں ووٹ دیا تھا اور اس کے لیے ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی۔ لیکن اب تقریباً دو دہائیوں کے بعد ہر کوئی پورے کشمیر میں ووٹ ڈال رہا ہے،“۔

انجینئر رشید کے آبائی قصبے لنگیٹ میں، لوگ رشید کو ایک آزاد آدمی کے طور پر دیکھنے کی امید کے ساتھ ووٹ دینے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔

کپواڑہ کے تریہگام علاقے میں- جو اب کالعدم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کی جائے پیدائش ہے، جو ایک روایتی بائیکاٹ گاوں کے طورپر جانا جاتا تھا میں بھی اچھے خاصے ووٹ پڑے۔

ایک ریٹائرڈ پرنسپل محمد اشرف میر نے کہا کہ ترہگام میں لوگوں کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے نکلی۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ اب ووٹ کی طاقت کو سمجھ چکے ہیں۔

ترہگام کے ایک سکول کے چار پولنگ سٹیشنوں میں سے 3735 ووٹوں میں سے 1023 ووٹ دوپہر کے قریب فال ہوئے تھے

عہدیداروں نے بتایا کہ 2,103 پولنگ اسٹیشنوں میں سے کئی پر بھی کوئی ناخوشگوار واقع رونمانہیں ہوا۔

a3w
a3w