حیدرآبادسوشیل میڈیا

بی جے پی قائدین ایمرجنسی کے دور میں بی بی سی کی تعریف کرتے تھے: اسداویسی

اے آئی ایم آئی ایم صدر اسدالدین اویسی نے آج بی بی سی کے دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس کے سروے پر مرکزی حکومت کو نشانہ تنقید بنایا۔

حیدرآباد: اے آئی ایم آئی ایم صدر اسدالدین اویسی نے آج بی بی سی کے دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس کے سروے پر مرکزی حکومت کو نشانہ تنقید بنایا۔

متعلقہ خبریں
اسدالدین اویسی کا کووڈ وبا کے تباہ کن اثرات کی طرف اشارہ
اسد الدین اویسی نے گھر گھر پہنچ کر عوام سے ملاقات (ویڈیو)
کالیشورم پروجیکٹ اسکام پر کانگریس کا دہرا موقف: ڈی کے ارونا
سیاسی محرکہ تشدد: بی جے پی قائد
مسلمان اگر عزت کی زندگی چاہتے ہو تو پی ڈی ایم اتحاد کا ساتھ دیں: اویسی

انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کے دور میں (1975-77) جب بی جے پی کو موزوں معلوم ہوتا تھا تو اس کے قائدین بی بی سی کی تعریف کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کارکرد جمہوریت کیلئے صحافت کی آزادی بے حد اہم ہے۔ انہوں نے دھاوؤں کی مذمت کرتے ہوئے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا کی جانب سے جاری کئے گئے بیان سے اتفاق کیا۔

اے آئی ایم آئی ایم صدر نے یہ امید ظاہر کی کہ بی بی سی پر دباؤ ڈالا نہیں جائے گا اور اسے سچائی بیان کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بہت ہی غلط وقت پر دھاوے کئے گئے اور اسی لئے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے دھاوؤں کی مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کیا۔

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ایس عبدالنذیر کو جو 2019 میں دیئے گئے ایودھیا فیصلہ کا حصہ تھے، آندھراپردیش کا گورنر بنائے جانے سے متعلق ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے اویسی نے کہا کہ کسی کو گورنر کے منصب جلیلہ پر فائز کرنے پر کوئی دستوری پابندی نہیں ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ سبکدوش جج نے اس عہدہ کو کیوں قبول کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اب عوام کے ذہن میں یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں سب سے بڑی مقدمہ باز حکومت ہے اور اسی حکومت نے آپ کو ریٹائر ہونے کے بعد یہ عہدہ دیا ہے کیونکہ آپ اس مقدمہ کا فیصلہ سنانے والے ججوں میں شامل تھے تو ہوسکتا ہے کہ عام آدمی کے ذہن میں کچھ شکوک و شبہات پیدا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ شکوک و شبہات حقیقی ہیں یا نہیں۔

یہ شکوک و شبہات پیدا ہونے نہیں چاہئے تھے۔ ان کی وجہ سے مستقبل میں کئی سوالات اٹھیں گے۔ میں نہیں جانتا کہ معزز ریٹائرڈ جج نے اس عہدہ کو کیوں قبول کیا ہے کیونکہ بحیثیت جج انہیں ایک مکان اور ہر سہولت الاٹ کی گئی تھی۔ بی جے پی کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے۔

یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ جسٹس (ریٹائرڈ) عبدالنذیر اُس پانچ رکنی دستوری بنچ کا حصہ تھے جس نے نومبر 2019 میں ایودھیا میں متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کی تھی اور مرکز کو ہدایت دی تھی کہ وہ سنی وقف بورڈ کو مسجد کیلئے پانچ ایکڑ کا پلاٹ کسی اور مقام پر الاٹ کرے۔