حقیقتِ قربانی
قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ رب تبارک وتعالیٰ اپنے بندے سے جو طلب کرے جان، مال، اولاد سب کچھ اس کی راہ میں رضا ئے الٰہی کی خاطر قربان کرنے کا نام ہے، اس میں نہ دکھاواہو نہ شہرت، فقط اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ
قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ رب تبارک وتعالیٰ اپنے بندے سے جو طلب کرے جان، مال، اولاد سب کچھ اس کی راہ میں رضا ئے الٰہی کی خاطر قربان کرنے کا نام ہے، اس میں نہ دکھاواہو نہ شہرت، فقط اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُم ( سورہ حج) اللہ کے پاس نہ ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کا مقصد ظاہر فرمایا ہے قربانی کرنے والوں کو چاہئے کہ خدا پرستی او رپرہیز گاری کی روح اپنے اندر پیدا کریں قربانی کے جانور کی طرح اپنے مالک حقیقی کے نام پر اور اس کے دین اور اس کی مخلوق کی خدمت کیلئے اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔
حقیقت میں یہی جذبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف حاصل کر سکتا ہے ورنہ جانوروں کا گوشت اور خون کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کی بارگاہ تک پہنچ سکے اور قربانی ایک ایسی عبادت ہے جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہی ہوا ہے۔ جیسا کہ سورہ مائدہ میں ارشاد خداوندی ہے: وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَر(سورہ مائدہ ) اور اے رسول ِ ؐ! آپ ان لوگوں کو آدم کے دوبیٹوں کی سچی خبر سنائیں جب دونوں نے قربانی پیش کی، پس ان دونوں میں سے ایک کی قربانی قبول فرمائی گئی اور دوسرے سے اس کی قربانی قبول نہیں فرمائی گئی۔
اس آیت میں قربانی کا جو واقعہ بیان کیا گیاوہ اس طرح ہے کہ حضرت حواء علیہا السلام کے ہاں ایک حمل سے ایک لڑکا اور لڑکی پیدا ہوئے، لڑکے کا نام قابیل تھا اور اس کی بہن اقلیما تھی، پھر دوسرے حمل سے ہابیل اور اس کی بہن لیوذا پیدا ہوئیں، جب وہ بڑے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک کا نکاح اس کی بہن کے ساتھ کر دیا جائے اور قابیل کی بہن زیادہ حسین تھی، پس قابیل نے ہابیل کے ساتھ اس کے نکاح کا انکار کیا بلکہ اس نے کہا: ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی بہن سے نکاح کرے گا، پس حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اسی بات کا حکم فرمایا ہے، تو قابیل نے حضرت آدم ؑ سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم نہیں دیا لیکن آپ ہابیل کی طرف داری کر رہے ہیں، پس حضرت آدم ؑ نے ان دونوں کو قربانی کرنے کا حکم فرمایااور کہا : پس تم میں سے جس کی بھی قربانی قبول ہوگی وہی اس لڑکی کا زیادہ حق دار ہوگا۔
تو قابیل نے قربانی کا قصد کیا اور قابیل کھیتی باڑی کرنے والا تھا اور اس نے اپنی قربانی کو پہاڑ کے پاس رکھ دیا، اور ہابیل مویشی پالتا تھا، اس نے ایک بہترین بکری کو پہاڑ کے پاس رکھ دیا اور قابیل اپنے دل میں یہ منصوبہ بنارہا تھا کہ اس کی قربانی قبول ہویا نہ ہو وہ اپنی بہن ہابیل کے حوالہ نہیں کرے گا، پس آسما ن سے ایک آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا، اور یہ سابقہ امتوں میں قربانی کے قبول ہونے کی علامت تھی اور اس آگ نے قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا ، اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا معنی ہے کہ دونوں نے قربانی پیش کی فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَر یعنی ہابیل کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے یعنی قابیل کی قربانی نہیںقبول کی گئی۔
قربانی کا سلسلہ ابتداء ہی سے جاری ہے اور یہ ہر امت میںچلا آرہا ہے۔ مشیت ِ رب یہ ہے کہ بندہ اس کی چاہت میں ہر وقت سب کچھ قربان کرنے تیار رہے۔ محبت وبندگی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کی رضا میں تن من دھن سب کچھ قربان کرنے ہمہ تن تیار رہے۔ امت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہر چیز اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کی فکر پیدا کرنے کی خاطر رسول ِ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب آپ سے سوال کیا گیا کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارے والد محترم سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے :
ماھذہ الا ضاحي ٰ ؟قال: سنۃ ابیکم ابراھیم علیہ السلام۔۔۔ الخ () یا رسول اللہ ﷺ! قربانی کی حقیقت کیا ہے تو آپ نے فرمایا تمہارے جد امجد سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنی جان ، مال ودولت ، اولاد سب کی اللہ کی راہ میں قربان کیا تھا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے صالح اولاد کیلئے دعاء کی کہ اے اللہ مجھے نیک اولاد عطا فرما: رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ خ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْم (سورہ صافات) الٰہی مجھے نیک لائق اولاد دے تو ہم نے انہیں خوشخبری سنائی ایک بردبار لڑکے کی۔
آپ کو حضرت اسماعیل ؑ کی شکل میں نہایت عبادت گزار، مطیع، فرمابردار، نیک صالح ، صابر، بردباربیٹا عطا کیا گیا ۔ جب وہ نورِ نظر چلنے پھرنے ، سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچ گئے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے خلیل سے ان کے بیٹے کی قربانی طلب کی چنانچہ قرآن کریم میں ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ ۔۔ الخ پھر جب وہ لڑکا ( اسماعیل ؑ )حضرت ابراھیم ؑ کے ساتھ بھاگ دوڑ کی عمر کو پہنچے تو حضرت ابراھیم ؑ نے کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتائوتمہاری کیا رائے ہے؟ کہا: اے میرے والد !آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس کو کر گزرئیے ، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔
قربانی کے وقت اسماعیل علیہ السلام کی عمر: قال بعضھم: کان في ذالک الوقت ابن ثلاث عشرۃ سنۃ (تفسیر کبیر) بعض اہل علم کا قول یہ ہے کہ ذبح کیے واقعہ کے وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی۔
امتحان کی وجہ: چونکہ پہلی آیت کریمہ میں یہ ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو حلیم (برد بار) بیٹے کی بشارت دی اب امتحان لے کر اسے واضح کردیا کہ کتنا عظیم صابر اور بردبار بیٹا آپ کو رب تعالیٰ نے عطا کیا جس نے اتنے بڑے امتحان کو صبر اور خندہ پیشانی سے پاس کیا۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے تین دن مسلسل خواب دیکھا : ذی الحجہ کے سات دن گزر جانے پر رات کو خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے: ’ بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے‘ آپ نے صبح اس خواب کے بارے میں غور وفکر کیا اور کچھ تردد میں رہے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے؟ یا خواب فقط خیال تو نہیں۔ اسی وجہ سے آٹھ ذی الحجہ کا نام یوم الترویہ رکھا گیا (سوچ بچار کا دن) آٹھ تاریخ کا دن گزر جانے پر رات پھر خواب دیکھا، صبح یقین کر لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی حکم ہے اسی لئے نو ذی الحجہ کو یوم عرفہ (پہچاننے کا دن ) کہا جاتا ہے، اس کے بعد آنے والی رات کو پھر یہی خواب دیکھا، صبح اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اسی وجہ سے دس ذی الحجہ کو یوم النحر(ذبح کا دن) کہا جاتا ہے۔ (تفسیر کبیر)
بیٹے سے مشورہ کرنے کی وجہ : اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے سے مشورہ کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ آپ پر یہ ظاہر ہو جائے کہ آپ کا بیٹا اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری میں کتنا صابر ہے؟ اس طرح آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوگی۔ جب آپ دیکھیں گے کہ آپ کا بیٹا حلم (بردباری) کے اعلیٰ معیار پر فائز ہو چکا ہے اور اس طرح بیٹے کو بھی سخت مشکلات میں عظیم صبر کرنے پر اعلیٰ درجہ حاصل ہو جائے، آخرت میں ثواب حاصل ہو اور دنیا میں بھی آپ کی تعریف ہو۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے صبر کے پختہ ارادہ کو ’ان شاء اللہ ‘ سے ملا کر برکت حاصل کی اور اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا کہ جو کام مستقبل میں کرنا ہو اس کے ساتھ ’ان شاء اللہ ‘ ذکر کیا جائے کیونکہ نیکی کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اسی طرح گناہوں سے بچنا بھی اسی کے فضل سے نصیب ہوتا ہے۔ جس وقت حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنے صاحب زادہ کو ذبح کرنے کے لئے مقام ِ منیٰ لے جا رہے تھے شیطان بہت زیادہ پریشان تھاکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام قربانی پیش کرکے رب کے انتہائی مقرب ہو جائیں گے۔
تو اس نے حضرت ابراھیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو بہکانے کی کوشش کی چنانچہ حدیث میں ہے: حضرت قتادہ ؓ سے مروی ہے کہ شیطان نے حضرت ابراھیم ؑ اور آپ کے بیٹے کو بہکانے کا ارادہ کیا تو ایک دوست کی شکل میں آپ کو آپ کے ارادے سے روکنے کیلئے آیا لیکن کامیاب نہ ہوسکا پھر آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اس راہ سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن ان پر بھی اس کا دائو نہ چل سکا تو وہ بہت موٹا تازہ بن کر وادی کو بھر دیا تاکہ آپ اس سے آگے نہ جا سکیں، حضرت ابراھیم ؑ کے ساتھ ایک فرشتہ تھا جس نے آپ سے کہا: اسے ماریں آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں تو وہ راستے سے ہٹ گیا، دوبارہ پھر آگے آنے کی کوشش کی آپ نے پھر کنکریاں مار کر راستہ سے ہٹا دیا، تیسری بار پھر اسی طرح آگے آکر راستہ بند کر دیا تو آپ نے پھر اسی طرح سات کنکریاں مار کر راستہ سے ہٹا دیا۔ آج حاجیوں پر اس سنت ابراھیمی پر عمل کرنا واجب کر دیا گیا، سبحان اللہ اپنے محبوبوں کی ادائیں رب تعالیٰ کو کیسی پسند آئیں ؟ کہ ان کو عظیم عبادت کا حصہ بنا دیا گیا۔ (تفسیر روح المعانی)
جب حضرت ابراھیم ؑ ذبح کرنے کیلئے اپنے صاحب زادے کو لٹانا چاہا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا: اے میرے ابا جان! ذبح سے پہلے مجھے باندھ دینا تاکہ میں نہ تڑپوں ، اپنے کپڑوں کو مجھ سے بچا کر رکھنا تاکہ آپ کے کپڑے میرے خون سے آلودہ نہ ہوجائیں اور میری والدہ انہیں دیکھ کر پریشان نہ ہوں، میرے حلق پر چھری جلدی جلدی چلانا تاکہ مجھ پر موت آسانی سے واقع ہوجائے، جب میری والدہ کے پاس جانا تو میرا سلام کہہ دینا، ان باتوں کے بعد باپ بیٹے نے ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھا باپ نے بیٹے کا بوسہ لیا محبت کے آنسو چھلک پڑے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پرسر تسلیم خم کیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا یا ۔ ماتھے کے بل لٹانے میں بھی اسماعیل علیہ السلام کا مشورہ ہی تھا کہ کہیں آپ محبت پدری کی وجہ سے چھری چلانے میں کوتاہی نہ کردیں۔ اور ہم نے انہیں ندا فرمائی: فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ (103) وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنین اے ابراھیم ! بے شک آپ نے خواب کو سچ کر دکھا یا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکو کاروں کو، بیشک یہ واضح امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ دے کر انہیں بچا لیا اور ہم نے پچھلوں میں ان کی تعریف باقی رکھی۔ چھری چلانے سے پہلے ہی آپ کو کہہ دیا گیا کہ آپ نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایاکہ آپ نے چھری چلادی تھی تو جبرئیل علیہ السلام نے آکر اس کا رخ بدل دیا تھا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک موٹا تازہ سینگوں والا سفید سیاہی مائل دنبہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ بنا کر بھیجا گیا اور آپ کو ذبح سے بچا کر بھی ذبح ہوجانے کا اجر وثواب عطا کیا اور تاقیامت آپ کو ذبیح اللہ ( اللہ کی رضا کیلئے ذبح ہونے والا) کے لقب سے متصف کر دیا گیا۔ (روح المعانی) جبرئیل امین ؑ جب فدیہ لے کر آئے تو خیال کیاکہ ابراھیم علیہ السلام کہیں جلدی نہ کردیں تو آپ نے پڑھا : اللہ اکبر اللہ اکبر۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے جب آسمانوں کی طرف سر اٹھا یا تو دیکھا کہ جبرئیل فدیہ لارہے ہیں تو پڑھا : لا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔
جب حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام نے سنا تو آپ نے پڑھا: اللہ اکبر وللہ الحمد۔ ان تینوں حضرات کے مجموعی کلام کو ’تکبیراتِ تشریق‘ کی صورت میں تا قیامت نمازیوں پر ذی الحج کی نو تاریخ کی نماز فجر سے لے تیرہ تاریخ کی نماز عصر تک واجب کر دیا گیا تاکہ یہ یاد گار قائم رہے۔ ( قاضی خان، حاشیہ ہدایہ) خیال رہے کہ مدارک میں دوسرا کلام حضرت اسماعیل ؑ اور تیسرا کلام حضرت ابراھیم ؑ کا مذکور ہے۔
٭٭٭