دہلی

بلڈوزر انصاف، رہنمایانہ خطوط جاری کی جائیں گی، جمعیت علمائے ہند کی درخواست پر سپریم کورٹ کی رولنگ

کئی ریاستوں میں فوجداری کیسس میں ملوث افراد کے مکانات بلڈوزرس سے ڈھائے جانے پر سپریم کورٹ نے پیر کے دن سوال کیا کہ کسی کا مکان صرف اس بنیاد پر کیسے ڈھایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ملزم ہے۔

نئی دہلی: کئی ریاستوں میں فوجداری کیسس میں ملوث افراد کے مکانات بلڈوزرس سے ڈھائے جانے پر سپریم کورٹ نے پیر کے دن سوال کیا کہ کسی کا مکان صرف اس بنیاد پر کیسے ڈھایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ملزم ہے۔

متعلقہ خبریں
مسلمانوں کے تمام مسائل کو حل کرنے چیف منسٹر کا تیقن
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز

عدالت نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں رہنمایانہ خطوط جاری کرے گی جو سارے ملک میں لاگو ہوں گے۔ جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بنچ نے پوچھا کہ صرف ملزم ہونے پر کسی کا مکان کیسے منہدم کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ خاطی ہو تب بھی قانونی ضابطہ کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔

عدالت نے تاہم کہا کہ وہ کسی غیرمجاز تعمیر یا سڑکوں پر انکروچمنٹ کا تحفظ نہیں کرے گی۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا حکومت ِ اترپردیش کی طرف سے پیش ہوئے اور انہوں نے اس عاملہ میں ریاست کی طرف سے سابق میں داخل حلف نامہ کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ کسی جرم میں مبینہ ملوث ہونا اس شخص کی غیرمنقولہ جائیداد کے انہدام کی بنیاد کبھی بھی نہیں بن سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کہہ چکی ہے کہ غیرمنقولہ جائیداد اسی وقت ڈھائی جاسکتی ہے جب قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہو اور اس کے لئے بھی بلدیہ کے قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ غیرمنقولہ جائیداد صرف اس بنیاد پر نہیں ڈھائی جاسکتی کہ جائیداد کے مالک یا اس میں رہنے والے نے کوئی فوجداری جرم کیا ہو۔

بنچ نے اس پر کہا کہ اگر آپ اس موقف سے اتفاق کررہے ہیں تو ہم اسے ریکارڈ پر لیں گے اور تمام ریاستوں کے لئے رہنمایانہ خطوط جاری کریں گے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کہا کہ ہم کسی غیرمجاز تعمیر یا سڑکوں پر انکروچمنٹ کو یہاں تک کہ سڑکوں پر بنے مندروں کو تحفظ نہیں فراہم کررہے ہیں۔ تشار مہتا نے کہا کہ مسئلہ پر ریاستوں سے بات چیت کی جائے گی تاکہ مسئلہ کا حل نکل آئے۔

سالیسیٹر جنرل نے کہا کہ درخواست گزار مسئلہ کو ایسا دکھارہے ہیں جیسے جائیدادیں صرف اس لئے ڈھائی جارہی ہیں کہ بعض لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عدالت کو بتاسکتے ہیں کہ حکومت نے انہدامی کارروائی سے قبل نوٹسیں جاری کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنازعہ عرصہ قبل میری طرف سے (حکومت ِ اترپردیش) داخل حلف نامہ سے ختم ہوجانا چاہئے۔

بنچ نے زور دیا کہ رہنمایانہ خطوط وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ کوئی بھی شخص یا حکام قانونی نقص کا فائدہ نہ اٹھاسکیں۔ سینئر وکیل دشینت دوے نے ایک درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ بیان ریکارڈ کیا جائے کہ سارے ملک میں بلڈوزر انصاف نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لگ بھگ ہر ریاست میں یہی ہورہا ہے۔ جائیدادیں ڈھائی جارہی ہیں۔

سینئر وکیل سی یو سنگھ بعض درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے۔ انہوں نے بعض دیگر ریاستوں میں جائیدادوں کے انہدام کا حوالہ دیا۔ بنچ نے کہا کہ ہم سارے ملک کے لئے رہنمایانہ خطوط جاری کریں گے۔ بنچ نے فریقوں کے وکیلوں سے کہا کہ وہ اپنی تجاویز دیں تاکہ عدالت مناسب رہنمایانہ خطوط جاری کرسکے جن کا اطلاق ملک بھر میں ہو۔

عدالت نے معاملہ کی مزید سماعت 17 ستمبر کو مقرر کی۔ وکلاء میں تلخ بحث و تکرار پر بنچ نے کہا کہ عدالت کو میدان ِ جنگ نہ بنایا جائے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت‘ جمعیت علمائے ہند اور دیگر کی داخل کردہ درخواستوں کی سماعت کررہی تھی۔ جمیعت نے سابق میں قومی دارالحکومت کے جہانگیر پوری علاقہ میں بعض عمارتوں کے انہدام پر سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی تھی۔