بچے اور اسکرین ٹائم
جوبچے اسمارٹ فون اپنے ساتھ بسترمیں رکھتے ہیں ان میں بے خوابی بڑھتی جارہی ہے۔ 2020ء کی تحقیقات کے تحت بچے اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ ڈیجیٹل ڈیوائس کودیتے ہیں۔
اسمارٹ فونز اورٹیبلٹ کا جادو بچوں کے سرچڑھ کر یوں بول رہا ہے کہ اب وہ دیگر جسمانی سرگرمیوں کے بجائے زیادہ تر وقت اسی پرصرف کرتے ہیں۔ آٹھ برس یااس سے بڑی عمر کے زیادہ تربچے روزانہ اوسطاً پانچ سے چھ گھنٹے اسکرین کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔
وہ اپنے دن کا زیادہ ترحصہ آن لائن رہتے ہیں۔ جس میں اسکول ،پڑھائی، سوشلائزنگ، کھانا اور کھیل شامل ہیں آج کل یہ تمام مصروفیات آن لائن ہوتی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اسٹڈی کی حالیہ تحقیق کے مطابق نسل درنسل اسکرین ٹائم میں اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے۔ تین سے چار اورپھر چھ گھنٹے یعنی وقت گھٹنے کے بجائے بڑھتا چلاجارہا ہے۔
آٹھ برس سے کم عمر کے بچوں میں بڑھتے ہوئے اس جنون کے پیش نظروالدین کوخبردار کیاگیا ہے کہ وہ بچوں میں آن لائن بڑھتے ہوئے وقت کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
کیونکہ بچوں میں بڑھتی ہوئی یہ عادت انہیں کم خوابی موٹاپے، سائنرلڑائی جھگڑوں،معاشرتی اقدار سے لاعلمی اوردوبروگفٹ وشنید جیسی مہارت سے محروم کرسکتا ہے۔ چند برس قبل والدین بچوں کے ٹی وی دیکھنے سے پریشان تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے ذہن پربرے اثرات مرتب کررہا ہے۔
لیکن برطانیہ کے اعداد وشمار کے مطابق بچے کمپیوٹرکوصرف آن لائن کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یوکے میںصرف ایک تہائی گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔یوکے ٹائم یوزسروے مطابق 2000-01کے درمیان آٹھ برس سے18برس تک بچے اور نوجوان 59منٹ
اسکرین پرصرف کرتے تھے۔ تاہم ان پندرہ برسوں میں پانچ گھنٹوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اوراب وہ دو گھنٹے 16منٹ ہرروزالیکٹرانک ڈیوائسزجیسے فون اور ٹیبلٹ پرمصروف رہتے ہیں۔ جبکہ کمپیوٹر کے ٹائم میں گزشتہ کی نسبت اب یومیہ 40منٹ کا اضافہ ہوگیا ہے۔
وہ یہ وقت فیس بک، انسٹاگرام اوردیگر سوشل میڈیا کودیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب 70فی صد 12سے15برس کے بچوں کے پاس اپنا اسمارٹ فون ہے اوریہ نوجوان 76منٹ اسکرین پرروزانہ چپکے رہتے ہیں اور ایسے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں کسی چیز کا ہوش ہی نہیں ہوتا۔ جبکہ40منٹ اسی طرح کمپیوٹرکودیتے ہیں ۔ اس کامطلب ہوا کہ اب نوجوان اپنی زندگی ایک تہائی ٹیکنالوجی سے گلولگا کربیٹھنے میں صرف کررہے ہیں۔
کمپین فاررئیل ایجوکیشن کے چیئرمین کرس میک گورن کا کہنا ہے کہ اب یہ خطرہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے کہ ہم زومبی نسل کی پیداوار کوبڑھارہے ہیں۔ جو اپنے اسمارٹ فونز کے انتہائی عادی ہوچکے ہیں حتیٰ کہ اب وہ بسترمیں بھی اسمارٹ فون کے بغیر نہیں ہوتے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن کے ڈاکٹرAngharad Rudkinنے ٹیکنالوجی کے خطرات کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں والدین کوخبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکرین ٹائم دن بدن بڑھتا جارہا ہے اوراگر ہم نے اسے کم کرنے کی کوشش نہیں کی تو اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا جو بچوں کی ذہنی اورجسمانی صحت پر انتہائی اثرات مرتب کرے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے مطابق لڑکے روزانہ50منٹ کمپیوٹر گیم کھیلنے میں گزارتے ہیں۔جبکہ لڑکیاں دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے اسکرین پرزیادہ وقت صرف کرتی ہے وہ بہت زیادہ اسمارٹ فونز اورٹیبلٹ کا استعمال کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب لڑکیاں پڑھائی ،گھر کا کام کاج ،میل جول اور گیمز میں بہت کم حصہ لیتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ برطانیہ میں بعض اسکولوں نے اسمارٹ فونز پرپابندی عائد کردی ہے۔ جبکہ کئی اسکولوں میں بچے اپنے اسمارٹ فون کرتے ہیں۔ Ofcomکے مطابق 2015ء میں یہ پانچ میں سے چار بچوں کے پاس جن کی عمریں پانچ سے پندرہ برس تھیں ٹیبلٹ تھا۔ جوکہ2010ء میں ایک چوتھائی پڑھ گیا۔
اب بچوں کو اپنے ڈیوائسز جن اسمارٹ فونز ،ٹیبلٹ اورکمپیوٹرز شامل ہے خاصی معلومات ہوتی ہے جوکہ2000ء میں نہ ہونے کے برابر تھی۔
ڈاکٹر رودکن کا کہنا ہے اب اگربچوں کوٹیک کے حوالے سے پابندی لگانے کی کوشش کی جائے وہ بہت جلد غصے میں آجاتے ہیں شورشرابہ مچادیتے ہیں ۔بچے،بالغوں سے زیادہ مرعوب نظرآتے ہیں۔
وہ سوشل میڈیا پراپ ڈیٹس اور لائکس میں زیادہ زیادہ لیتے ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکی تحقیق کے مطابق نوجوان روزانہ پانچ گھنٹے اسمارٹ فونز اور الیکٹرانک ڈیوئسز پرصرف کرتے ہیں۔ جس کے باعث ان 71فیصد نوجوانوں میں ڈپیریشن کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
جوبچے اسمارٹ فون اپنے ساتھ بسترمیں رکھتے ہیں ان میں بے خوابی بڑھتی جارہی ہے۔ 2020ء کی تحقیقات کے تحت بچے اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ ڈیجیٹل ڈیوائس کودیتے ہیں۔
جبکہ دیگر سرگرمیوں ،ان کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہیں،آکسفورڈ یونیورسٹی سینٹرفارٹائم یوزریسرچ کے ڈاکٹر کیلیان مولان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کو بہت سے معاملات میں گھرکے کام کاج یادیگرکاموں کے لئے استعمال کرنا چاہے بجائے اس کے بچوں کو اس سے دورکیا جائے انہیں اس کے ذریعے گھر کے کام کاج اوردیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے ترغیب دی جائے۔اس طرح بچے لغو اور فضولیات کے بجائے مثبت طریقے میں اس کااستعمال کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
٭٭٭