مضامین

سوتیلی ماں…

عورت تو محبت اور چاہت کی دیوی ہوتی ہے وہ کائنات کی رونق ہوتی ہے، ہر روپ میں وہ قابل احترام ہوتی ہے وہ تو محبت باٹنا چاہتی ہے پر ڈرتی ہے کہ اسے کہیں کوئی رسوائی ہاتھ نہ لگ جائے ، کہیں اسے سوت کا طعنہ دیا جاتا ہے تو کہیں ساس کا اور کہیں نند کا تو کہیں ظالم عورت کا جاہل عورت ان پڑھ ، گنوار اور نہ جانے کن کن ناموں سے اسے سراہا جاتا ہے۔

  فہمیدہ تبسّم: اردو پنڈت

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

ریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ

کہتے ہیں کہ ماں اگر مرجائے تو باپ بھی سوتیلا ہو جاتا ہے ، اسے آج پتہ چلا کہ حقیقی اور سوتیلے رشتوں میں فرق کیا ہوتا ہے اور کس طرح سے حقیقی رشتہ مجازی اور سوتیلا رشتہ ایک حقیقی رشتے میں تبدیل ہوسکتا ہے،وہ جان چکا تھا ۔

  اس نے کبھی اپنی ماں سے ایک لمحہ کی جدائی کا بھی نہیں سونچا تھا وہ تو اپنے ماں باپ کا اکلوتا اور لاڈلہ بیٹا تھا اسکو تو ماں باپ کا پیار بے حد نصیب تھا بچپن سے لیکر آج تک اس نے ماں کی ممتا لو ٹی اور باپ کی شفقت سیمیٹی تھی ۔

یہی وجہ ہے کہ آج عمر کے اس دور میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ اپنی ماں کی ممتا کو محسوس کرتا ہوا محرومی کا شکار ہو رہا ہے تب کہیں جاکر پتہ چلا کے ماں تو ماں ہی ہوتی ہے اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔

 اسی لئے قدرت نے شائد ماں کا درجہ اتنا بلند رکھا کہ اس کے پیروں تلے جنت کو قائم کیا ،پر دوسری طرف با پ کا مقام بھی تو اتناہی بلند ہے کہ وہ جنت کا بیج کا دروازه ہے پھر ہمیں باپ سے زیادہ ماں کی طرف دل کیوں مائل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ سارا گھر ماں سنبھال لیتی ہے۔

 اولاد کی تعلیم سے لے کر تربیت اور اس کی خوشیاں ، ضروریات اچھا برا سب بے چاری ماں ہی تو دیکھتی ہےہاں باپ کی ذمہ داری کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا گھر کو چلانا ہر دور کی مہنگائی سے لڑتے ہوئے اپنے اہل خانہ کی ساری خوشیوں کو قائم رکھنے کی کوشش کرنا اور ساتھ میں اپنی اولاد کے روشن مستقبلِ کی فکر کرنا …پر بچوں کو یہ نہیں دکھا ئی دیتا ، اولاد کو ماں باپ دونوں کی محبت کی ضرورت ہوتی ہے جینے کے لئے اور کسی ایک کمی بھی بچوں کو سماج میں ایک اچھے اور بہتر شہری بننے میں رکاوٹ حائل کرسکتی ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ ماں اس دنیا میں نہیں ہے تو باپ کی محبت بھی مجھےکمزور پڑ تی نظر آرہی ہے  یا یوں کہ اب باپ کی نظروں میں میں وہ پیارا بیٹا نہیں رہا …

نوح اب دسویں جماعت کا طالب علم تھا وہ بہت ذہین اور جماعت میں اول درجہ سے کامیاب ہونے والا لڑکا تھا سارے اساتذہ اس سے بہت خوش تھے کہ وہ ان کے مدرسہ کا نام روشن کررہا ہے ، گھر میں نور صاحب اور بیگم نور بھی اپنے بیٹے سے بہت خوش تھے۔

 نوح اخلاق میں بھی اول درجہ رکھتا تھا کیوں نہ ہو بیگم نور اسے بچپن سے اخلاقی اقدار کا درس جو دیتی ہوئی آئی تھی.. . نور صاحب تو ملازم پیشہ آدمی تھے دوستانہ زیاده رکھنے کی وجہ سے آفس کے بعد زیادہ تر وقت دوستوں کی محفلوں مِیں ہی بيت جاتا ، گھر آنے تک بیگم اور بیٹا بستر تیار کردیتے بس عشائیہ کے بعد نور صاحب آرام کرلیتے ….

قدرت اپنے بندوں سے امتحان لیتی ہے کچھ ایسی ہی امتحان کی گھڑی نور صاحب اور نوح پر آن پڑی ، بیگم نور کو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے موت واقع ہوگئی ، عالمی وباء کوویڈ کے بعد نجانے کیوں لوگ کھڑے کھڑے اچانک دل کا دور ہ پڑھ کر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

یہ المناک خبر اب نور صاحب کے گھر میں بھی نمودار ہوگئی ، اس انہونی گھڑی اور اس اچانک ملنے والی غمگین ساعت کو دونوں باپ بیٹے کیسے اپنائے، انھیں یہ غم سہنے کی طاقت ہمت کہاں سے آئے …وہ تو یقین نہیں کرپارہے تھے کہ کوئی اس طرح سے بھی پل بھر میں ساتھ چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جاسکتا ہے ! دوست احباب سب نے دلاسہ دیا چند دن تو رشتے داروں نے ساتھ دیا پھر آہستہ آہستہ تنہائی نے ان دونوں کو آگھیرا …

اُدھر نوح کے سالانہ امتحانات قریب تھے اور وہ ذہنی طور پر منتشر ہو چکا تھا .dispersed کرنے والا وقت آئیگا اس نے سوچا بھی نہ تھا، اب کرے تو کیا کرے وہ کدھر جائے اس کی تو دنیا لٹ گئی ادھر نور صاحب جو بہت ہی خوش مزاج انسان تھے یک دم خاموش ہوگئے…

باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو تسلی دیتے ہوئے دن گزارنے لگے …

نوح بہت کوشش کررہا تھا کہ اس بار بھی درجہ اول سے کامیابی حاصل کر لے پر ذہن پڑھائی کی طرف راغب نہیں ہورہا تھا پتہ نہیں اسے کیا ہوگیا تھا جب کبھی پڑھنے بیٹھتا اسکی ماں کی آواز اسے بلاتی سنائی دیتی وہ کتاب بند کرکے حیران پریشان نظروں سے ہر طرف اپنی ماں کو ڈھونڈ نے لگتا پر کیا کوئی مرنے کے بعد دوباره لوٹ آیا ہے ؟ نہیں تو پھر اسے یقین کیوں نہیں ہوتا …

نور صاحب کی حالت پر اب ہر کوئی رحم کھانے لگا . ” اس طرح سے مرنے والوں کے ساتھ تو کوئی مرا نہیں جاتا ” ایک دن اکبر صاحب نے دوست کو سمجھایا . میں کیا کروں اکبر مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا رخسانہ اس طرح سے مجھے اکیلا چھوڑ گئی ادھر بچہ بھی بہت پریشان ہے اف خدا تو ہی حل بتا ؟۔

 نور ایک بات کہوں؟ ہاں کہو! برا مت ماننا یار … کیا مطلب ؟ دیکھ اب تری عمر بھی اتنی زیاده نہیں ہے اور بچہ بھی ابھی پندره سال کا ہے ؛ میرا مشورہ ہے کہ عقد ثانی کرلے … کیا ؟ کیا کہا تم نے ؟ دوباره شادى ؟ ہاں یار اس میں برا کیا ہے ، ہمارا مذہب بیوی کے رہتے زائد نکاح کی اجازت دے رہا ہے یہاں تو تجھے اب سہارے کی ضرورت ہے ….

اس میں قباحت کیا ہے گھر کو ویران ہونے سے بچانا ہے اور تجھے بھی اب ساتھی کی سخت ضرورت ہے ، وجود زن سے ہی کائنات میں رونق ہے اور پھر الحمد اللہ نور تم ملازم پیشہ بھی ہو معاشی حالت بھی مستحکم ہے میری بات مان لو اور دوسرا بیاہ کر لو !

 کسی ہے سہارہ عورت کو سہارا بھی مل جائے گا ؛ اکبر نے اپنے دوست کو ہر طرح سے سمجھا کر گھر کی راہ لی .نوح کے سالانہ امتحانات ختم ہوئے اور انٹر کا داخلہ اقامتی کالج میں کروادیا گیا …

اور نور صاحب نے چپکے سے آسیہ سے نکاح کرلیا ، آسیہ ایک بیوہ تھی اور کم عمر اور بے اولاد تھی پڑھی لکھی اور اچھے خاندان کی تھی .

جب نوح چھٹیوں میں گھر آیا تو اپنی ماں کی جگہ دوسری ماں کو دیکھا یعنی سوتیلی ماں آسیہ کو دیکھا ، نور صاحب نے سنجیدگی سے بیٹے کا تعارف بيوى سے کروایا… . نوح کے دل پر اس وقت جو کیفیت طاری ہوئی وہی بہتر جانتا تھا۔

وہ خاموشی سے اپنی step mother کو سلام کرتا ہوا اپنے روم میں آگیا اور الماری سے اپنی ماں کی تصویر نکال کر سینے سے لگاتا ہوا زارو و قطار رونے لگا، اتنا رویا کہ اسکی ہچکی بندھ گئی اور وہ روتا ہوا بستر پر لیٹ گیا ….

دروازه پر دستک سے وہ چونک گیا نور صاحب کھڑے اس سے اندر آنے کی اجازت طلب کررہے تھے . ابو آپ ؟ آئیے نا ! میں جانتا ہوں بیٹے آپ پر کیا گزررہی ہے ،پر میں حالات اور وقت کے ہاتھوں مجبور تھا آپ کے مستقبل اور میری ضعیفی کو سہارا ملنا ضروری تھا۔

 اگر مجھے ایک بیٹی ہوتی تو میں کبھی یہ قدم نہیں اٹھاتا کیونکہ بغیر عورت کے گھر قبرستان لگتا ہے اور آپ کی امی ہمیں اس طرح اپاہج بنا گئی کہ اب عورت ذات کا ہماری زندگی میں رہنا اشد ضروری ہوگیا .

میں وعده کرتا ہوں نوح کہ آپ کو کسی قسم کی کوئی شکایت آسیہ سے نہیں ہونے دوںگا… . نور صاحب کی آنکھیں رقت آمیز آواز روہانسی ہوگئی آنکھوں میں آئے آنسو کو وہ ضبط کرتے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاکر بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگے . نوح کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ باپ سے لپٹ کر رونے لگا… . کچھ دیر بعد دونوں باپ بیٹے ہال میں آگئے اور دوسری باتوں میں مصروف ہوگئے….

آسیہ کم گو طبیعت کی مالک تھی ، پر ہمیشہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے کام میں مصروف رہتی اِدھر نوح اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئے اور زیادہ نہیں بس ہفتہ میں ایک مرتبہ گھر کو فون کرلیتے خیر خیریت معلوم کرلیتے . کبھی آسیہ موبائل ریسو کرتی تو بس سلام کرکے کٹ کردیتے …

دن ہفتوں ، ہفتے مہینوں میں گزرگئے اور Nee t کے انٹرنس میں اعلیٰ نشانات حاصل کرکے نوح فری میڈیکل سیٹ حاصل کر لیے۔نور صاحب کو تو بہت خوش ہونا چاہیے تھا اس نے گھر آتے ہی ابو سے ملنے کے لئے اشتیاق اور ڈھیر ساری امنگیں بھرا دل لیے ڈور بل پر ہاتھ رکھا …

نور صاحب نے گود میں گڑیا جیسی لڑکی کو لیے دروازه کھولا ….وه خوشی سے باپ کے گلے لگنا چاه رہا تھا مگر اس کے اور ابو کے بیچ گڑیا حائل ہوگئی … وہ سلام کرتا ہوا اپنے روم کا رخ کرنے لگا … برآمدے میں آسیہ نے اسے روک لیا ارے بیٹا آپ کب آئے ؟ وہ سوال کرتی ہوئی نوح کو مسکراکر دیکھنے لگی …. جی بس ابھی ! اچھا آپ فریش ہو جائیے ،میں کھانا لگاتی ہوں۔

جی ٹھیک ہے وہ اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا کہ آسیہ کی آواز نے اسے روک دیا نوح بیٹا ! وہ تڑپ اٹھا اسکی آواز میں درد تھا، اسے اپنی ماں کے بلانے کی آواز آئی وہ فوراً جی امی کہتا ہوا  پلٹا … آپ نے بتایا نہیں کہ ہم دعوت کب کریں گے آپ کی میڈسن میں فری سیٹ آنے کی خوشی میں ؟۔

 وہ ہکا بکا سا آسیہ کو دیکھنے لگا … اس سے پہلے کہ وہ کچھ  اور کہتی اس نےدوڑ کر آسیہ کے ہاتھ تھام لیے . آنکھوں میں آنسو لے کر مسکراتا ہوا کہنے لگا: امی آپ جب مناسب سمجھیں….

کون کہتا ہے کہ رشتے نام کے بدلنے سے اپنی حقیقت کھو دیتے ہیں . رشتے تو ہمیشہ سے اپنائیت اور خلوص کے محتاج ہوتے ہیں …

وه اپنے کمرے میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ ماں سوتیلی نہیں ہوتی بلکہ ماں اگر مرجائے تو باپ سوتیلا ہو جاتا ہے اور ایسا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ رشتوں کو حقیقی محبت کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے کبھی کبھی سگے رشتوں کو سوتیلے بننا پڑتا ہے ….

 آج ابو اگر میرے تعلق سے بے رخی نہ دکھاتے تو شاید میں اپنی ماں کو کبھی حاصل نہ کرپاتا . رشتوں کی استواری اس کی اپنائیت اور وفاداری میں چھپی ہوئی ہوتی ہے ….

عورت تو محبت اور چاہت کی دیوی ہوتی ہے وہ کائنات کی رونق ہوتی ہے، ہر روپ میں وہ قابل احترام ہوتی ہے وہ تو محبت باٹنا چاہتی ہے پر ڈرتی ہے کہ اسے کہیں کوئی رسوائی ہاتھ نہ لگ جائے ، کہیں اسے سوت کا طعنہ دیا جاتا ہے تو کہیں ساس کا اور کہیں نند کا تو کہیں ظالم عورت کا جاہل عورت ان پڑھ ، گنوار اور نہ جانے کن کن ناموں سے اسے سراہا جاتا ہے اور نجانے کیسے کیسے برے القاب وه اپنے گوش گزار کرکے صبر کرلیتی ہے ، جس کی وہ حق دار نہیں وہ تو دنیا میں بھلائی ،اخوت اور ممتا جیسے حسین جذبات کو ایک خوشبو کی طرح بکھرنے آئی ہے ،

 مرد حضرات اس کی نادانی اور خلوص و محبت کا ناجائز فائده اٹھاتے ہیں . کہنے تو ہم بڑے چاؤ سے ” مدر ڈے ، ” ویمن ڈے ” اور نجانے کون کونسے ڈے مناتے ہیں دوسری طرف سماج میں عورت کو ہر طرح سے آج بدنام کیا جارہا ہے، اس پر ہر طرح کے الزامات کے سہرے سجائے جارہے ہیں پر کیا اس میں پورا نہ سہی آدھا ذمہ دار مرد نہیں ہے؟

 نو ح آج سارے تفکرات کے بھیانک جنگل سے آزاد ہوکر ایک نئی زندگی کی اڑان بھرنا چاه رہا تھا، جہاں اسے اپنے دل کی معصوم چڑیا صرف اور صرف سچی اور حقیقی محبت کے پر کھولے اڑنے کی تیاری کرتی نظر آرہی تھی… اس اڑان  میں وہ اس کے ابو اور امی کے ساتھ پیاری سی فاریہ شامل تھی اور اس نے اپنے ذہن میں کوئی خوف ناک یا خطرناک شکاری کا تصور نہیں آنے دیا . تا کہ اپنی منزل مقصود پر وہ خیر و عافیت کے سفر کے ساتھ پہنچ سکے …..

وہ فرش ہوکر ڈائنگ ہال میں آگیا وہاں پر ابو امی اور فاریہ اس کے منتظر تھے، اسے دیکھتے ہی ابو مسکرانے لگے اور امی فاریہ کو اپنے گود میں لیتی ہوئی نوح کو کھانا پروس نے لگی ۔

٭٭٭

a3w
a3w