کھیل

دوہری مہارت کے کھلاڑی

یہ 1958 کی بات ہے کہ ویسٹ انڈین شہر کنگسٹن میں 26 فروری تا 4 مارچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین تیسرا ٹسٹ کھیلا گیا۔ میچ کی دوسری اننگز میں ویسٹ انڈین بلے بازوں نے 790 بناکر رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔

یہ 1958 کی بات ہے کہ ویسٹ انڈین شہر کنگسٹن میں 26 فروری تا 4 مارچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین تیسرا ٹسٹ کھیلا گیا۔ میچ کی دوسری اننگز میں ویسٹ انڈین بلے بازوں نے 790 بناکر رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔ اس اننگ کی خصوصیت ممتاز بلے باز گیری سوبرس کے 365 رن تھے۔ اس وقت برطانوی کرکٹر، لین ہٹن نے دنیائے کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز 364 رن بنا رکھے تھے۔ یہ ریکارڈ 20 سال سے چلا آرہا تھا۔ مورخین راوی ہیں کہ جب گیری سربرز 364 رنز پر پہنچے تو جزو وقتی رائٹ آرم پاکستانی اسپنر، حنیف محمد انہیں گیند کرارہے تھے۔

متعلقہ خبریں
اشون عظیم کھلاڑیوں کے کلب میں شامل ہوں گے
جاریہ سال 5 ہندوستانی کھلاری ریٹائرمنٹ لیں گے!
نیوزی لینڈ نے دوسرا ٹی ٹوئنٹی 21 رن سے جیت لیا
پاکستان اصل مسئلہ نہیں: غلام نبی آزاد
آخر پاکستان پر بات کیوں ہورہی ہے جب انتخابات ہندوستان میں ہورہے ہیں:پرینکا

اچانک ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ حنیف محمد نے امپائر سے درخواست کی کہ وہ لیفٹ آرم اسپن کرانا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر امپائر کو حیرت ہوئی تاہم اس نے گیری سوبرز سے پوچھا کہ انہیں تو کوئی اعتراض نہیں؟ سوبرز نے نفی میں سر ہلا دیا۔ اس وقت کم ہی لوگوں کو علم تھاکہ حنیف محمد دائیں اور بائیں، دونوں بازووں سے گیند کراسکتے ہیں۔ اب انہوں نے یہ سوچ کر لیفٹ آرم اسپن کرانے کا فیصلہ کیاکہ شاید اس طریقہ سے سوبرس آؤٹ ہو جائے اور نیا عالمی ریکارڈ نہ بن سکے۔ تاہم سوبرز نے اس گیند پر رن بنالیا۔ اس طرح حنیف محمد اپنی حکمت عملی میں کامیاب نہ ہوسکے۔

دنیائے کرکٹ میں جو کھلاڑی بلے بازی یا بولنگ کراتے ہوئے بآسانی اپنے دونوں بازو استعمال کرسکے وہ اصطلاح میں ”دو ہتھا“ (Ambidextrous) کہلاتا ہے۔ اس قسم کے کھلاڑی بہت کم ہیں، مگر جنم ضرور لیتے ہیں۔ آپ کئی کھلاڑیوں کی آپ بیتیاں پڑھئے، وہ افشاء کرتی ہیں کہ لڑکپن میں کئی بولرس دائیں او ربائیں ہاتھ سے بولنگ کراتے تھے مگر کوچ کے کہنے پر وہ لیفٹ یا رائٹ آرم بولر بن گئے۔ بعض اوقات کچھ بولرس لیفٹ آرم بالنگ کراتے رہے۔ جب بات نہ بنی تو رائٹ آرام بولنگ کرانے لگے اور نمایاں بولر ثابت ہوئے۔

بعض کھلاڑی دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرتے اور بائیں بازو سے بولنگ کراتے ہیں۔ ان میں سورو گنگوگلی، کرس گیل اور کلائیو لائیڈ جیسے ممتاز کھلاڑی شامل ہیں۔ مشہور آسٹریلوی کھلاڑی مائیکل ہائڈن شروع میں بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرتا تھا۔ وہ نو سال کا تھاکہ ایلن بارڈر سے متاثر ہوکر دائیں بازو سے کھیلنے لگا اور پھر دنیا میں نام کمایا۔ ایان ہارو ے عمدہ آسٹریلوی آل راونڈر گزرا ہے۔ یہ کھلاڑی بائیں ہاتھ سے بیٹنگ اور بولنگ کرتا تھا مگر فیلڈنگ کرتے ہوئے عموماً بایاں ہاتھ استعمال کرتا۔ اسی ہاتھ سے اس نے کئی کیچ پکڑے۔

ریکارڈ بکس کی رو سے دنیائے کرکٹ میں تین سو سے زیادہ ”دوہتھے“ کھلاڑی جنم لے چکے ہیں۔ ان میں مشہور ومعروف ہستیاں بھی شامل ہیں۔ مثال کے طورپر برائن لارا الٹے ہاتھ سے بیٹنگ کرتے تھے مگر وہ بولنگ کرانے اور تحریر لکھنے میں سیدھے ہاتھ سے کام لیتے۔ اسی طرح سابق آسٹریلوی کپتان مائیکل کلارک سیدھے ہاتھ سے بلے بازی کرتے تو الٹے ہاتھ سے اسپن بولنگ کرتے۔ عام طورپر کوچ ابھرتے ”دو ہتھے“ کھلاڑی کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ بیٹنگ یا بولنگ کے ایک انداز (اسٹائل) پر توجہ مرکوز کرو۔ اگر دونوں انداز برقرار رکھے تو کسی ایک میں مہارت حاصل نہیں کرسکو گے۔

ہندوستان کے کامیاب کپتانوں میں سے ایک سورو گنگولی بھی دوہری مہارت کے حامل کھلاڑی تھے۔ وہ دائیں ہاتھ سے بولنگ اور بائیں ہاتھ سے بیاٹنگ کرتے تھے۔

جنوبی آفریقہ کے سابق اسٹار آل راؤنڈر لانس کلوزنر بھی اس خوبی سے مالا مال تھے۔ کلوزنر بھی بائیں ہاتھ سے بیاٹنگ اور دائیں ہاتھ سے بولنگ کراتے تھے۔ کلوزنر اور سورو گنگولی دونوں نے اپنے کیریر کے دوران بے انتہا کامیابیاں حاصل کیں اور اپنی اپنی ٹیموں کیلئے گرانقدر خدمات انجام دی۔ ویسٹ انڈیز کے سابق اسٹار فاسٹ بولر کرٹلی امبروز‘کرکٹ کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ امروز کی خطرناک گیندبازی آج بھی سب کے ذہنوں میں موجود ہے۔ وہ نہ صرف کیریبین بلکہ دنیائے کرکٹ چند ایک خطرناک گیندبازوں میں سے ایک ہیں۔ امروز بھی بائیں ہاتھ سے بولنگ اور بائیں ہاتھ سے بیاٹنگ کیا کرتے تھے۔

سری لنکا کو عالمی چمپئن کا خطاب دلانے والے سابق کپتان ارجنا رانا تنگا بھی دوہری صلاحیتوں کے حامل تھے۔ وہ ایک مایہ ناز بلے باز تھے جو بائیں ہاتھ سے کھیلتے ہوئے بڑے بڑے بولرس کی دھجیاں اڑایا کرتے۔ رانا تنگا بائیں ہاتھ سے بیاٹنگ کرنے کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ کے دوران دائیں ہاتھ کا استعمال کرتے تھے۔

ان کے علاوہ دیگر کئی کھلاڑی ہیں جو دوہری صلاحیتوں کے باعث دنیائے کرکٹ میں اپنی منفرد پہچان رکھتے تھے۔ ٭