مذہب

میزبانِ رسولؐ حضرت سیدنا ابوایوب انصاریؓ

حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم مبارک خالد ابن زید تھا۔ آپ قبیلہ خزرج کے بنو نجّار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد کا نام زید اور دادا کا اسم کلیب تھا۔ آپ کی والدہ کا نام ہند بنت سعید تھا۔ آپ حضور اکرم ﷺ کے نانہالی رشتہ دار تھے۔ آپ کی ولادت مدینہ منورہ (یثرب) میں ہوئی۔

سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی الرفاعی القادری

حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم مبارک خالد ابن زید تھا۔ آپ قبیلہ خزرج کے بنو نجّار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد کا نام زید اور دادا کا اسم کلیب تھا۔ آپ کی والدہ کا نام ہند بنت سعید تھا۔ آپ حضور اکرم ﷺ کے نانہالی رشتہ دار تھے۔ آپ کی ولادت مدینہ منورہ (یثرب) میں ہوئی۔ آپ گھاٹی عقبہ جاکر حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

اپنے دوستوں، گھر والوں اور رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی چنانچہ آپ کی بیوی ام حسن بنت مشرف بہ اسلام ہوئیں۔حضور اکرم ﷺ نے ہی آپ کو ابو ایوب انصاری کے پیارے نام سے مخاطب کیا۔ آپ حضور اکرم ﷺ کے صحابی تھے۔ حضور اکرم ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ منورہ کا ہر مسلمان شہری آپ کو اپنے ہاں بحیثیت مہمان مکرم رکھنے کا اعزاز حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میزبانی کاشرف بخشا۔

آپ نے حضور اکرم ﷺ کو نہایت ہی خلوص، محبت ، ادب و احترام سے مہامان نوازی فرمائی۔ حضور اکرم ﷺ آپ کے مکان کی نچلی منزل میں تقریباً سات مہینے مہمان رہ کر اپنے مکان میں جو نیا تعمیر کیا گیا تھا منتقل ہوکر سکونت پزیر ہوئے۔ آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے لئے دو یتیم بچوں سے زمیں خرید کر مسجد کے لئے وقف فرمادی۔ اس طرح آپ اسلام میں پہلے واقف سے جانے جاتے ہیں۔ آپ سخاوت کے ساتھ ساتھ شجاعت اور بہادری میں یکتا تھے۔

آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ، حضور اکرم ﷺ سے لیکر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک تقریبا” ہر جنگ میں اسلامی سپاہی بن کر مجاہدانہ جوہر دکھائے جن میں جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق، بیعت الرضوان وغیرہ شامل تھے۔ تمام غزواۃ میں آپ حضور اکرم ﷺ کے ہم رکاب رہے۔ حضور اکرم ﷺ نے آپ کو بہ موقعہ مواخات حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجر کو آپ کا بھائی بنایا۔ جب حضور اکرم ﷺ نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عراق روانہ کیا تو آپ کو ان کا نائب مقرر فرمایا۔ خوارج سے لڑائی کے دوران آپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خلافت کے دوران اسلامی حکومت کا دارالخلافہ کوفہ کو بنایا تو آپ کو مدینہ منورہ کا امیر مقرر کیا۔ آپ کو احادیث شریفہ جمع کرنے کا کافی شوق تھا۔ چنانچہ آپ صرف ایک حدیث حاصل کرنےکے لئے آپ مصر کے گورنر حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے گئے اور حدیث حاصل کرنے کے بعد فوری لوٹ گئے۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھے فقیہ تھے۔ چنانچہ آپ سے کئی حضرات صحابہ اور تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم دینی مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کل اخلاق میں جو تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں وہ حب حضور اکرم ﷺ ، جوش ایمان اور حق گوئی۔

حضور اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کو بے حد محبت تھی۔حضور اکرم ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جان نثاروں کے لئے روضہ اقدس کے سوا اور کونسی چیز باعث تشفی و تسلی ہوسکتی ہے؟ ایک دفعہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضور اکرم ﷺ کے روضہ اطہر کے پاس تشریف رکھتے تھے،اپنا چہرہ ضریح اقدس سے مس کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں وہاں مروان بن حکم گورنر مدینہ آگیا اور اعتراض کیا۔ اس کو یہ فعل بظاہر خلاف سنت معلوم ہوا۔ اس کی معلومات اور رموز کو وہ جانتا نہ تھا جو آپ جانتے تھے۔

اس کے اعتراض کو سمجھ کر آپ نے فرمایا "میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اینٹ اور پتھر کے پاس نہیں آیا”۔ حضرت عبدالرحمن(جو حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے تھے) نے کسی جنگ میں چار قیدیوں کو ہاتھ پاؤں بندھواکر قتل کرادیا، جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا حضور اکرم ﷺ نے اس قسم کے وحشیانہ قتل سے ممانعت فرمائی ہے۔ غزوہ روم زمانہ میں جہاز میں بہت سے قیدی افسر تقسیمات کی نگرانی میں تھے، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادھر سے گذرے تو دیکھا کہ قیدیوں میں ایک عورت بھی ہے جو زار و قطار رو رہی ہے۔

آپ نے سبب دریافت کیا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا بچہ اس سے الگ کردیا گیا ہے۔ آپ نے بچہ کا ہاتھ پکڑ کر اس عورت کے ہاتھ میں دیدیا۔ آپ نے امیر سے کہا کہ حضور اکرم ﷺ نے اس طریقہ ستم کی ممانعت کی ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میںاسلامی لشکر نے رومیوں کی سلطنت قسطنطنیہ پر 49 ہجری میں کئی حملے کئے، اس وقت آپ کافی بوڑھے ہوچکے تھے اور آپ کی عمر شریف اس وقت اسّی برس کی تھی۔ اس کے باوجود آپ بحر روم پار فرمائے۔

آپ بیمار بھی ہوگئے لیکن آپ نے اسلامی لشکر کے ساتھ ہی رہے۔ آپ نے ہدایت فرمائی کے دشمنوں کی صفوں میں بے دریغ اندر گھس کر ان کو شکست سے دوچار کریں اور ان کے علاقہ کو فتح کریں، آپ بہت نحیف ہوگئے تھے چلنے کے قابل نہ تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے اٹھا کر لے جائیں اور اپنے ساتھ اپنے قدموں میں رکھیں۔ اسلامی لشکر نے دشمن رومیوں کو قسطنطنیہ کی قلعہ کی دیوار تک پیچھے دھکیل دیا۔ آپ کا انتقال52 ہجری میں ہوا۔

قسطنطنیہ کی قلعہ کی دیوار کے قریب ہی رات میں آپ کو سپرد لحد کیا گیا۔ آپ کی مزار اقدس کی حفاظت کے لئے رومیوں سے معاہدہ کیا گیا۔ اب یہ علاقہ استنبول کےیورپی حصہ کے ضلع ایوب میں ہے اور سلطان ایوب کہلاتا ہے۔ آج بھی آپ کے مزار اقدس کو روزانہ سینکڑوں زائرین بلالحاظ مذہب قوم و ملت ساری دنیا سے آکر زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔

آپ کی پر رونق گنبد کے روبرو بڑی ہی خوبصورت مسجد ہے جس کا نام ایوب سلطان مسجد ہے۔ جب بھی قسطنطنیہ میں قحط ہوتا رومی آپ کی مزار اقدس پر آتے اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تو فورا” بارش ہوا کرتی۔ الحمدللہ ماہ مئی24 میں مجھے اس مقدس بارگاہ کی زیارت اور مسجد میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔

(اس مضمون کی تیاری میں: البدایہ و النھایہ کتاب سیرت رسول ﷺ؛ الخطیب بغدادی، تاریخ بغداد؛ الطبقات الکبری؛ سیرۃ النبی ابن ہشام؛ مسند احمد؛ الاصابۃ فی معرفۃالصحابۃ؛ تاریخ ابنجریرطبری وغیرہ)
٭٭٭

a3w
a3w