شہزادہ سلیم اور انار کلی کتنی حقیقت کتنا فسانہ ،کیا جان پائے گا زمانہ؟
اب اس منظر کو برصغیر ہندوپاک کے کسی سنیما گھر میں چلنے والی ’’ مغل اعظم ‘‘ یا ’’انار کلی ‘‘ فلم کانام دیں یا چاہیںتو امتیاز علی تاج کے ڈرامے ’’انارکلی‘‘ ڈرامے سے منسوب کریں۔

شاہی قلعے کا منظر ، محل سرا کے دروازے کھلتے ہیں ،سپاہی ننگی تلواریں لئے زنجیروں میںجکڑی، ڈری سہمی ایک نازک اندام کنیز کو لئے چلے آرہے ہیں۔ منظر بدلتا ہے اوراب سپاہی اس کنیز کو زندہ دیوار میں چن رہے ہیں۔ پس منظر ہیں المیہ موسیقی کے سر بلند ہوتے ہیں، دبی دبی سی سسکیوں کی آواز آتی ہے اور پھر پردہ گرجاتا ہے۔
اب اس منظر کو برصغیر ہندوپاک کے کسی سنیما گھر میں چلنے والی ’’ مغل اعظم ‘‘ یا ’’انار کلی ‘‘ فلم کانام دیں یا چاہیںتو امتیاز علی تاج کے ڈرامے ’’انارکلی‘‘ ڈرامے سے منسوب کریں۔
کہانی کا پس منظر ایک ہی ہے۔مغل تاریخ کی عشقیہ داستان ’’شہزادہ سلیم اورانارکلی‘‘ شہزادہ سلیم سے منسوب مغل تاریخ کی اس داستان سے ہمارا پڑھالکھا طبقہ یقینا واقف ہے ۔ مغل شہنشاہ اکبراعظم کی کنیز اوراکبر کے فرزند شہزادہ سلیم کی یہ داستان عشق برصغیر کے فلم سازوں ،ڈراما نگاروں اور ادیبوں کا پسندیدہ موضوع رہاہے۔
سرحد کے دونوں طرف اس موضوع پر بہت سی فلمیں ڈرامے اور ناول تخلیق کئے گئے۔ ہمارے تخلیق کاروں نے بدقسمتی سے اس موضوع پر سنجیدہ تحقیق کئے بغیر ڈرامے اورفلمیں تیار کیں اور نتیجتاً اس داستان پر مبنی بے شمار، بے سروپا باتیںشامل ہوتی چلی گئیں۔
اس طرح مغل تاریخ کے دو پرشکوہ حکمرانوں اکبر اور جہانگیر (شہزادہ سلیم) سے اس حوالے سے لاتعداد لغویات منسوب ہوگئیں۔ اب اگریہاں کوئی کہے کہ مغل تاریخ میں انارکلی نامی کسی کنیز کا وجود نہیں ملتا اور نہ ہی شہزادہ سلیم کا کوئی عشق کسی کنیز کے ساتھ تاریخ کی مستند کتابوں میں موجود ہے تو یقیناہمارے قارئین حیران ہوجائیںگے، مگر حقیقت یہی ہے ۔
بطور تاریخ کے طالب علم، جب ہم نے اس داستان پر تحقیق کرنے کی کوشش کی کہ اس میںسے فکشن کو حقائق سے علیحدہ کیاجائے تو انکشاف ہوا کہ یہ مکمل داستان ہی سراسر فکشن پر مبنی ہے اوراس کا سہرا ہمارے تاریخی ناول نگاروں اورفلم سازوں کے سرجاتا ہے۔
آئیے اکبر اور جہانگیر کے دور کی مستند تاریخ کو کھنگالتے ہوئے شہزادہ سلیم اورانارکلی کی داستان کی حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شہنشاہ اکبر کا دور مغل تاریخ میں ایک الگ مقام رکھتا ہے، اس دور کی خصوصیت ہے کہ اس میں ’’آئین اکبری‘‘ اور ’’اکبرنامہ‘‘ جیسی تصانیف لکھی گئیں جن میں اس زمانے کی تمام جزئیات محفوظ ہیں، مگر ان کتب میں ہمیں شہزادہ سلیم اور انارکلی کے واقعے کا کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں ملتا۔
ابو الفضل جو اکبر کا درباری مورخ تھا، اس نے محض ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جس میں شہزادہ سلیم اکبر کے حرم کے باہر پکڑا گیاتھا۔ ابوالفضل لکھتاہے کہ ایک شب اکبر کے حرم کے باہر مخافظین نے ایک پاگل شخص کو پکڑ لیا جو چھپ کر حرم سرا میں داخل ہونا چاہتا تھا۔
شورشر اباسن کر اکبر خود باہر آگیا اور عین ممکن تھا کہ وہ اس پاگل اوراس کے ساتھ موجود ایک اور شخص ، کہ جس کی شناخت بعد میں شہزادہ سلیم کی حیثیت سے ہوئی، دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا مگر شہزادہ سلیم کی شناخت ہونے پر معاملہ ٹل گیا۔
شہزادہ سلیم کے مطابق وہ اس پاگل شخص کو، جو چھپ کر حرم سرا (جہاں اکبر کی بیگمات اور کنزیں رہتی تھیں) میں جانا چاہتا تھا ، پکڑنے کی کوشش کررہا تھا اور اندھیرے کے سب محافظوں نے نرغے میں پھنس گیا۔ ابوالفضل نے محض یہ واقعہ نقل کیا ہے مگر بعض محققین کے خیال میں شہزادہ سلیم خود ہی حرم سرا میںداخل ہونا چاہتا تھا اور پکڑا گیا۔
مگر اس سارے قصے میںہمیں انار کلی نامی کنیز کا ذکر نہیں ملتا۔ مختصر یہ کہ دور اکبری کی تمام سرکاری اور غیر سرکاری طور پر لکھی گئی تاریخ میں ہمیں انارکلی نامی کسی کنیز، اس کا شہزادہ سلیم کے ساتھ تعلق شہزادہ سلیم اوراس کے ساتھیوں کا اس وجہ سے اکبر کے سامنے علم بغاوت بلند کرنا اور انارکلی کا زندہ دیوار میں چنوانے کا کہیں کوئی ادنیٰ ساذکر بھی نہیں ملتا۔
شہزادہ سلیم نے ایک بار اکبر کے سامنے علم بغاوت ضرور بلند کیاتھا اور دارالحکومت آگرہ کی سرحدوں پر فوج لے کر آگیاتھا۔ اس وقت اکبر دکن کے دورے پر تھا اور آگرہ کا تخت خالی تھا۔
مگر اس بغاوت کامقصد تخت کا حصول تھا کیونکہ اکبر اپنے فرزند سے زیادہ اپنے پوتے کو چاہتاتھا اور سلیم کاخیال تھا کہ شاید مغل تخت اس کے بجائے اس کے بیٹے شہزادہ خسرو کو مل جائے گا۔
اس وجہ سے اس نے اس وقت آگرہ پر قبضے کی کوشش کی تھی جب اکبر دکن میںتھا۔ مگر اکبر کے امراء نے سمجھا سمجھا کر اسے روک دیاتھا۔ اس بغاوت کا مقصد تخت کاحصول تھا نہ کہ کسی کنیز سے شادی کرنا۔
اکبر کے بعد جہانگیر (شہزادہ سلیم) کے دور میں بھی کسی تاریخ کی کتاب میں ہمیں یہ قصہ نہیں ملتا۔ جہانگیر نے اپنی تزک میںتفصیل کے ساتھ اپنے دور کے واقعات تحریر کئے ہیں۔ ’’تزک جہانگیری‘‘ میں جہانگیر نے اپنے کئی ایک معاشقوں کا ذکر کیا ہے۔
وہ اپنی شراب نوشی اور دیگر عادتوں کا تذکرہ بھی کھل کر کرتا ہے مگر انارکلی کے ضمن میں تزک جہانگیری بھی خاموش ہے۔ اب یہاںیہ سوال پیداہوتا ہے کہ اگر انارکلی نامی کنیز کے وجود کو جھٹلا دیاجائے تو پھر لاہور میں موجود مقبرہ انارکلی میں کون دفن ہے؟
انارکلی کا پہلاذکر ایک انگریزی سیاح ولیم فنچ کے سفر نامے میں ملتا ہے جس نے لاہور میں1608ء سے1611ء تک عرصہ گزارا۔ ولیم فنچ کے مطابق انارکلی، اکبر بادشاہ کی بیوی اور شہزادہ دانیال کی والدہ تھی۔ اکبر بادشاہ کو انار کلی اورشہزادہ سلیم کے متعلق شبہ ہوگیا اوراس نے انارکلی یعنی اپنی زوجہ کو زندہ شاہی قلعہ کی دیوار میںچنوا دیا۔
ولیم فنچ کے مطابق ، آگے چل کر، تخت نشینی کے بعد سلیم نے انارکلی کا خوبصورت مقبرہ تعمیر کروایا اوراس کے گرد انار کے درخت لگوائے۔ اگر واقعہ درست مان لیاجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کو اکبر نے پوشیدہ رکھا اور کسی تاریخ میں لکھنے نہ دیا۔
اگر ایسا ہے تو پھر ولیم فنچ جو محض ایک سیاح اورایسٹ انڈیا کمپنی کا تاجر تھا، اسے اپنے وقت کی ایک عظیم سلطنت کا راز کیسے معلوم ہوگیا؟
ولیم فنچ1608ء میںلاہور آیااور جہانگیر نے1605ء میں تخت سنبھالا، یعنی اگر اس واقعے کو درست تسلیم کرلیںتو بھی ابھی اسے وقوع پذیر ہوئے چند سال ہی گزرے تھے۔ اس لئے اس کا درباری حلقوں سے باہر ایک غیر ملکی سیاح اور تاجر کے علم میں آنا ناقابل فہم ہے۔
ولیم فنچ کے بعد ہیگل ، میسن اور دیگر یورپی سیاحوں نے لاہور میں مقبرہ انارکلی کے گرد خوشنما باغ کا تذکرہ کیا ہے مگر مقبرے میں موجود قبر کے بارے میں خاموش ہیں۔ ایک اور برطانوی سیاح ابراہم اریلے نے اکبر اورسلیم کے مابین کشیدگی کا ذکر کیا ہے۔
اریلے نے شہنشاہ اکبری کی ایک زوجہ اور سلیم کے تعلق سے متعلق ولیم فنچ کے بیان کو نقل کیا ہے اور ثبوت کے طور پر ابوالفضل کا تحریر کردہ واقعہ پیش کیاہے جس میںسلیم کو اکبر کے حرم سرا سے مشتبہ حالت میں پکڑا گیا تھا۔ اریلے کے خیال میں اکبر کی بیوی ہی دراصل انار کلی کے لقب سے مشہور تھی اور اکبر کی یہ زوجہ شہزادہ دانیال کی ماں تھی۔
ولیم فنچ کے بعد انارکلی کا ذکر1860ء میں شائع ہونے والی نوراحمد چشتی کی تصنیف ’’تحقیقات چشتیہ‘‘ میں ملتا ہے۔ اس کے مطابق انار کلی اکبر بادشاہ کی منظور نظر کنیز تھی جس کا اصل نام نادرہ بیگم یا شرف النساء تھا۔ اکبر کی نظر التفات نے محل سرا کی دیگر دو کنیزوں کو حسد میں مبتلا کردیاتھا۔
اکبر کے دورہ دکن کے دوران انارکلی بیمار ہوکر انتقال کرگئی اور شہنشاہ کے خوف سے کہ ان پر زہر دینے کا الزام آئے گا، ان دونوں کنیزوں نے خودکشی کرلی۔ دکن سے واپسی پر اکبر نے انارکلی کا مقبرہ تعمیر کروایا۔
’’تحقیقات چشتیہ‘‘ میں لکھے گئے واقعے میں بھی ایک جھول ہے ، اور یہ کہ مقبرہ انارکلی میں موجود قبر میں مدفون خاتون کانام تو مٹ گیا ہے مگر کتبہ میں ایک عشقیہ شعر تحریر ہے جس کے نیچے اکبر کے بجائے سلیم کانام موجود ہے۔
قصہ انارکلی موجود شکل میں پہلی مرتبہ، واقعے کے تقریباً پونے تین سو سال بعد1892ء میں شائع ہونے والی ’’تاریخ لاہور‘‘ میںشاہ عبدالطیف نے لکھا ہے۔ ان کے مطابق نادرہ بیگم یا شرف النساء نامی ایک کنیز اکبر کی منظور نظر تھی جسے اس کی خوبصورتی کے سبب انارکلی کا لقب دیاگیا تھا۔
انارکلی ہندوستان کے ولی عہد شہزادہ سلیم کی نظر التفات کا شکار ہوگئی اوراس پر اکبر نے اسے زندہ دیوار میںچنوادیا۔ مگر تاریخ لاہور کا منصف یہ نہیں لکھتا کہ پونے تین سو سال بعد اسے یہ واقعہ کیسے معلوم ہوا…
1892ء میں کنہیا لال نے ’’تحقیقات چشتیہ‘‘ کی تصدیق کرتے ہوئے اکبر کی منظور نظر کنیز انارکلی کی وفات بیماری سے بتائی ہے اور یہ واقعہ اکبر کے دورہ دکن کے دوران لکھا ہے۔ مقبرہ انارکلی کی تعمیر اکبر کے دور میں ہی ہوئی۔ کنہیالال کے مطابق کھڑک سنگھ کے دور میں یہ مقبرہ تباہ ہوا اور اس میں موجود جواہرات نکال لئے گئے۔ برطانوی دور میں اسے گرجا گھر میں تبدیل کردیاگیا۔
عبداللہ چغتائی نے ایک بالکل الگ نظر یہ پیش کیاہے۔ اٹھارویں صدی کے اس مورخ کے مطابق مقبرہ بعد میں تعمیر ہوا اورانار کا باغ پہلے۔ مقبرہ دراصل جہانگیر کی بیوی صاحب جمال کا ہے جس سے جہانگیر بہت محبت کرتا تھا۔ اسی وجہ سے یہ عشقیہ اشعار پر مبنی کتبے میں ’’ مجنون سلیم اکبر‘‘ تحریر ہے۔
عبدالرحمن چغتائی کا اٹھارویں صدی میں پیش کیاگیا یہ نظریہ حقیقت سے زیادہ قریب تر ہے۔ ’’تاریخ لاہور ، ماضی اور حال‘‘ کے مصنف محمد باقر بھی اسی نظریہ کی تائیدکرتے ہیں۔ محمد باقر کے خیال میں انار کلی سے منسوب مقبرہ ، جہانگیری کی زوجہ صاحب جمال کا ہے اورمقبرے کے گرد انار کے باغات کی وجہ سے عوام میںانارکلی سے مقبرہ منسوب ہوگیا۔
اس کی تائید یوں بھی ہوجاتی ہے کہ مقبرے کے کتبے میں مزار میں تدفین کا سال1599ء اور مزار کی عمارت کے مکمل ہونے کا سال1615ء درج ہے۔ اگر اکبر کی زوجہ اور شہزادہ دانیال کی والدہ کو انارکلی تسلیم کرلیاجائے۔
اور ولیم فنچ اور ابراہم اریلے کے بیان کو درست مانتے ہوئے ابوالفضل کا بیان کردہ واقعہ اس ضمن میں قبول کرلیاجائے تو بھی ایک اور الجھن درپیش ہے، اور وہ یہ کہ اکبری دستاویزات میں شہزاد دانیال کی والدہ کا سن وفات 1596ء درج ہے جو مقبرے کی تاریخ سے مختلف ہے۔
مزید یہ کہ اگر انارکلی کا وجود تسلیم کرلیاجائے اور یہ مان لیاجائے کہ مغل امرا نے اس واقعے کو سنسر کرتے ہوئے اکبر اور جہانگیرکے زمانے میں لکھے جانے والی تواریخ میں درج نہیں کیا تو پھر اکبر یا جہانگیر نے اس کا مقبرہ کیوں تعمیر کیا؟
جہانگیر کے ہر دلعزیز پوتے داراشکوہ نے بھی اپنی تصنیف ’’ سکینتہ الاولیا‘‘ میں انار کے خوشنما باغات کا تذکرہ کیا ہے جہاں لاہور کے صاحب کرامت بزرگ حضرت میاں میر صاحب کا حلقہ لگتا تھا۔ داراشکوہ، باغات کے تذکرے میں مقبرے کا ذکر نہیں کرتا۔
اس طرح معلوم ہوا کہ باغات اورمقبرہ علیحدہ علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ انارکلی اکبر کی ہر دلعزیز کنیز تھی اور اکبر کے دورہ دکن کے دوران بیماری سے وفات پاگئی تو اس کی یاد میں اکبر نے انار کے باغات لگوادئیے۔
ان خوشنما باغات کے درمیان بعد میں جہانگیر نے اپنی محبوب بیوی صاحب جمال کا خوبصورت آٹھ برجی مقبرہ تعمیر کروادیا۔ مقبرے کی تعمیر، اس کے بلند آٹھ برج ، قبر کے اوپر سنگ مرمر سے تحریر کردہ99 اسماء الحسنیٰ اور سب سے بڑھ کر، تحریر کردہ عشقیہ اشعار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مقبرے میں مدفون شخصیت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ افسوس کہ سکھوں کی لوٹ مار کے دوران اس پر درج نام مٹ گیا۔
دور حاضر میںا نارکلی کی اس داستان کے اصل خالق دراصل عبدالحلیم شرر ہیں جنہوں نے ’’ انارکلی‘‘ کے عنوان سے ناول لکھ کر اس قصے کو موجودہ شکل دی ۔ مگر شرر نے ناول کے شروع میں لکھ دیا کہ یہ محض فکشن ہے اوراسے تاریخ نہ سمجھا جائے۔
اسی کہانی کو لے کر1922 ء میں امتیاز علی تاج نے شہرئہ آفاق ڈرامہ ’’ انارکلی‘‘ تحریر کیا۔ پھر اس ناول اورڈرامے کے مرکزی خیال کے ساتھ ہندو پاک میں پچاسوں فلمیں اورڈرامے تخلیق کئے گئے جن میں سرفہرست فلم ’’مغل اعظم‘‘ ہے۔ اس طرح ایک ایسا کردار مغل اعظم سے منسوب ہوگیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاں تک ولیم فنچ اورابراہم اریلے کے بیانات ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں،کیونکہ مغربی سیاح اور تاجر جنہوں نے یورپ واپس جاکر مغلوں کے ہندوستان کے بارے میںحالات تحریر کئے، ان کی مغل درباروں تک رسائی نہیں تھی اور مغلوں کے دربار اورمحل سراکی کہانیاں۔
انہوں نے عوام سے قہوہ خانوں، سرائے خانوں اور بازاروں میںسنی سنائی باتوں کی بنیاد پر لکھ دیں۔ ہاں ان یورپی سیاحوں اورتاجروں نے ہندوستان کے سماجی، سیاسی، معاشی اورمعاشرتی حالات کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ یقینا ہندوستان کی اہم تاریخ ہے۔
مثال کے طور پر عالمگیر کے زمانے میں آنے والے یورپی سیاح ڈاکٹر فرانسس پرنینز نے شاہجہاں اور شہزادی جہاں آرا کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، وہ اگر سچ بھی مان لیں تو بھی حرم سرا کے راز سے ایک سیاح کا واقف ہوجانا بعید از قیاس ہے۔
مختصریہ کہ لاہور میں پنجاب سول سیکرٹریٹ سے ملحق سفید سنگ مرمر سے تعمیر شدہ آٹھ برجی پراسرار عمارت اوراس میں موجود بے نام قبر پر درج یہ اشعار منتظر ہیںکسی محقق کے، کہ شاید آنے والے وقت میں اس اسرار سے پردہ اٹھ جائے۔
٭٭٭