سوشیل میڈیامشرق وسطیٰ

اہرام مصر کی تعمیر کیسے ہوئی؟ سائنسدان ممکنہ جواب جاننے میں کامیاب

ماہرین نے صحرا کے نیچے دبی دریائے نیل کی ایسی شاخ دریافت کی ہے جو ہزاروں سال قبل 30 سے زائد اہرام کے گرد بہتی تھی۔ اس دریافت سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ کس طرح قدیم مصریوں نے اہرام تعمیر کرنے کے لیے بہت وزنی پتھر وہاں تک پہنچائے۔

قاہرہ: صدیوں پرانے اہرام مصر عرصے سے لوگوں اور سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ عرصہ سے سائنسدانوں کے لیے یہ سوال معمہ بنا ہوا ہے کہ ہزاروں سال قبل کس طرح قدیم مصر میں اتنے بڑے اہرام تعمیر کیے گئے مگر اب اس کا ممکنہ جواب سامنے آگیا ہے۔

متعلقہ خبریں
مصر اور عرب لیگ نے بین الاقوامی عدالت کی اڈوائزری کا خیرمقدم کیا
اجتماعی قبر سے ایک ہزار ڈھانچے دریافت، ماہرین دنگ رہ گئے
حماس قائد اسمٰعیل ھنیہ، جنگ بندی بات چیت کے بعد مصر سے روانہ
رونالڈو کی ڈائٹ ناسا کے سائنسدان سیٹ کرتے ہیں: رمیز راجہ (ویڈیو)
مودی کو مصر کا اعلیٰ ترین اعزاز

ماہرین نے صحرا کے نیچے دبی دریائے نیل کی ایسی شاخ دریافت کی ہے جو ہزاروں سال قبل 30 سے زائد اہرام کے گرد بہتی تھی۔ اس دریافت سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ کس طرح قدیم مصریوں نے اہرام تعمیر کرنے کے لیے بہت وزنی پتھر وہاں تک پہنچائے۔

40 میل لمبی دریا کی یہ شاخ نامعلوم عرصے قبل گیزہ کے عظیم ہرم اور دیگر اہرام کے گرد بہتی تھی اور ہزاروں سال قبل صحرا اور زرعی زمین کے نیچے چھپ گئی۔

ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ دریا کی موجودگی سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیسے 4700 سے 3700 برسوں قبل 31 اہرام اس وادی میں تعمیر ہوئے جو اب ویران صحرائی پٹی میں بدل چکی ہے۔یہ وادی مصر کے قدیم دارالحکومت ممفس کے قریب موجود ہے اور یہاں گیزہ کا عظیم ہرم بھی موجود ہے جو دنیا کے قدیم 7 عجائب میں شامل واحد ایسا عجوبہ ہے جو اب بھی موجود ہے۔

جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ایک تحقیق میں دریا کی اس شاخ کو دریافت کیا گیا۔سائنسدانوں نے ابو الہول کے مجسمے کا صدیوں پرانا راز جان لیا

خیال رہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کافی عرصے سے یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ قدیم مصر میں دریا کو ہی اہرام کی تعمیر کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔مگر اب تک کسی کو قدیم زمانے میں بہنے والے دریا کے مقام، ساخت یا حجم کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

تحقیقی ٹیم نے ریڈار سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے دریا کی اس خفیہ شاخ کو دریافت کیا۔اس مقام کے سرویز اور نمونوں کی جانچ پڑتال سے دریا کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔

محققین کے مطابق کسی زمانے میں یہ دریا بہت طاقتور ہوگا مگر ممکنہ طور پر 4200 سال قبل قحط سالی کے باعث وہ ریت میں چھپنا شروع ہوگیا۔ گیزہ کا عظیم ہرم اس چھپے ہوئے دریا کے کنارے سے محض ایک کلومیٹر کی دوری پر موجود ہے۔

اس ہرم کی تعمیر کے لیے 23 لاکھ بلاکس استعمال ہوئے تھے اور ہر بلاک کا وزن ڈھائی سے 15 ٹن کے درمیان تھا۔ محققین کے مطابق بیشتر اہرام بھی دریا کے اردگرد ہی واقع محسوس ہوتے ہیں اور یہ عندیہ ملتا ہے کہ اس دریا کو تعمیراتی سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دریا سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ اہرام مختلف مقامات پر کیوں تعمیر کیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ دریا کا راستہ اور بہاؤ وقت کے ساتھ بدلتا رہا اور اسی وجہ سے مصری شہنشاؤں نے مختلف مقامات پر اہرام تعمیر کیے۔