سیاستمضامین

مضبوط مرکز سیاسی مسلمانوں کی اہم ترین ضرورت

محمد انیس الدین

آزاد ہند کی پون صدی کا منصفانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں نے مضبوط اتحاد کا ثبوت نہیں دیا اور صرف سیاسی گود تلاش کرتے رہی۔ منظم اور منصوبہ بند دہشت کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہا اس پر سوائے جذباتی تقاریر ‘ احتجاجی جلسوں اور حکومت سے نمائندگی کے سوا کچھ نہیں کیا گیا۔ اس عدم بیداری کی صورتحال سے فرقہ پرست طاقتوں کو یہ تاثر ملا کہ مسلمانوں جو ظلم وستم ہوا وہ حق بجانب تھا اور جب بھی ظلم اور دہشت کا بازار گرم ہوتا تو اس کو فرقہ وارانہ فسادات کا نام دے کر بے قصور مسلمانوں کو پولیس اپنے قہر کا نشانہ بناتی اور یہ تاثر دیتی کہ ہونے والے فسادات میں قصور مسلمانوں کا ہی ہے ۔ اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے اور ملک میں ہونے والے فسادات کو حکومتی کمیشنوں کی رپورٹس کے مطابق مسلمانوں کی کسی بھی فساد میں غلطی ثابت نہیں ہوئی۔ ان ہولناک انسانیت کو شرمندہ کرنے والے فسادات اور مسلمانوں کی معاشی تباہی کے بعد بھی تاریخ گواہ ہے کہ کسی حکومت نے مظلوم مسلمانوں کی باز آبادکاری اور مالی اعانت نہیں کی اور نہ ہی اس یکطرفہ دہشت کو روکنے کوئی سخت قانون سازی کی کوشش کی بلکہ خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرکے مسلمانوں سے صرف ووٹ حاصل کرتے رہے اور یہ وظیفہ پڑھتے گئے کہ مسلمان قومی دھارے میں نہیں آتے۔ آخر اس قومی دھارے کے معنی و مفہوم کیا تھے؟
کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلم اقلیت سیکولرازم کے سراب میں آکر کسی سیکولر جماعت کی گود میں جگہ تلاش کرے یا مسلمان سیاسی طور پر متحد ہوکر ایک مضبوط مرکز سیاسی کے تحت اپنے دستوری حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں۔ مسلمان اپنی عدم بیداری اور عدم اتحاد سے نہ تو متحد ہوسکے اور نہ ہی گودی سیاست نے ان کی مدد کی۔ سیکولر جماعتیں جو مسلمانوں کو گودلینے کی عادی ہوگئیں اور پون صدی سے ان سے صرف ووٹ حاصل کرتے رہے ‘ اور مسلمان دلتوں سے بھی نچلے درجہ میں آگئے۔ اس کے ذمہ دار سیکولر جماعتیں اور خود مسلمان ہیں۔ سیکولر جماعتیں اسلئے ذمہ دار ہیں کہ وہ ملک میں حقیقی مخالفین دستور اور جمہوریت پر نظر رکھنے اور ان کو لگام دینے کے بجائے مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھتے رہے اور ملک اور دستور کے دشمنوں سے خفیہ ہمدردیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور سیکولرازم کی آڑ میں دستور دشمن طاقتیں آستین کے سانپ کی طرح پرورش پاتی رہیں اوران درپردہ ہمدردیوں اور منافقت کے نتائج آج عوام کے سامنے ہیں۔
مسلمان اس بات کو سمجھیں کہ اب سیاسی جماعتوں کو آپ کی اور آپ کے ووٹ کی ضرورت باقی نہیں رہی اگر کسی مقام پر شدت سے ضرورت محسوس ہوئی تو ایک افطار پارٹی کے عوض مسلمانوں کے ووٹ بہ آسانی مل سکتے ہیں۔ پون صدی میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوگئی۔
ایک منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے جسے مسلمان سمجھ نہیں رہے ہیں۔ آر ایسایس کا موڈ اور ان کی پالیسی وقت اور موسم اور سیاسی حالات کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں اور ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ایک عرصہ سے آر ایس ایس یہ بات دہراتی رہی کہ وہ کمزور طبقات کو تحفظات کے خلاف ہے لیکن اس کے سربراہ اب او بی سی ‘ دلت اور ایس ٹی کو تحفظات کی پرزوروکالت کررہے ہیں۔ اس قسم کی تبدیلیوں کو مسلمان یا تو سمجھ نہیں رہے ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ آر ایس ایس کی بات ان کے چاہنے والے فوری سمجھ جاتے ہیں اور کوئی سوال بھی نہیں کرتا۔ اس کے برعکس مسلمانوں سے ان کی بھلائی کی بات کی جائے تو وہ ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے باہر کردیتے ہیں۔ آر ایس ایس اپنی بقاء کیلئے کمزور طبقات کو ہر طریقہ سے لبھا کر اپنے قریب کررہی ہے اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتی ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آر ایس ایس کے 80-20 فیصد کے فارمولے کوسمجھیں ‘ اس سے یہ بات عوام کے ذہن میں بٹھائی جارہی ہے کہ ملک میں 80فیصد ہندو ہیں۔ یہ بات بعید از حقیقت ہے کیوں کہOBC,SC,ST سکھ‘ لنگایت ‘ ہندودھرم کو نہیں مانتے۔ 2011ء میں ہوئی مردم شماری کے مطابق ملک میں بہوجن سماج85فیصد ہیں ۔ ملک میں ہر 10سال میں مردم شماری ہوتی ہے اور ریکارڈ میں تفصیلات کا اندراج کرنے والے عہدیدار پینسل کا استعمال کرتے ہوئے مذہب کے کالم پر نشان لگا کر ‘ دفتر واپس جاکر حسب ہدایت ریکارڈ میں مذہب تبدیل کرکے ہندو مذہب کا اندراج کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس عمل سے ہندو اکثریت کے دعویٰ کو تقویت دی جائے۔ اور دوسری بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ بے شمار تحفظات‘ انعامات‘ عہدوں کی نواش اور لالچ کے بعد بھی ملک کے کمزور طبقات دلت اور قبائل ہندو دھرم کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ ایک وجہ یہ بھی ظاہر ہے کہ جس نظام کی جانب ان کو راغب کیاجارہا ہے وہ عدم مساوات اور اعلیٰ ادنیٰ میں تفریق کرنے والا ہے۔
ملک کے نامور اور معتبر علماء بھی مسلمانوں کو بیدار کرتے ہوئے ملک کے کمزور طبقات کو اپنے قریب کرنے اور ان سے اچھے تعلقات رکھنے کا دانشمندانہ مشورہ دے رہے ہیں اس ضمن میں سیاسی قائدین بھی آواز اٹھارہے ہیں لیکن کوئی عملی اقدام دکھائی نہیں دیتا۔
مسلمان ماضی سے سبق حاصل کریں‘ حال سے چوکس رہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ بغیراتحاداور مضبوط مرکز سیاسی اور جامع منصوبہ بندی اور ایک مضبوط اور مستحکم قیادت کے بغیر ہند کے مسلمان اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں سرخرو نہیں ہوسکتے۔
سوشیل میڈیا سے حال ہی میں سیاسی بے روزگاروں نے ایک جماعت بنائی اور اس خیال کا اظہار کیا کہ وہ اس جماعت کو بغیر کسی قیادت کے آگے لے جائیں گے۔ جماعت میں شامل ہر فرد قائد ہوگا۔ جماعت کے بانی نے کہا کہ ند میں پہلی بار اجتماعی قیادت کا ایک نیا تجربہ ہونے والاہے۔ ملک کے موجودہ حالات نئی جماعت اور اجتماعی قیادت کے تجربہ کی اجازت نہیں دیتے کیوں کہ ملک بہت تیز رفتاری سے آمریت کی جانب سفرکررہاہے۔
سوشیل میڈیا سے ایک دلت تنظیم کے سربراہ بھانوپرتاب سنگھ جو سپریم کورٹ کے سینئر وکیل بھی ہیں‘ نے ہند کے مسلمانوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ آخر آپ کو کیا ہوگیا ہے‘ بیدار کیوں نہیں ہوتے؟ مسلمان ہندوستان پر 800 سال حکمرانی کئے ‘ آپ خوفزدہ کیوں ہیں‘ ہند کے دلت آپ کے ساتھ ہیں۔
ذرا غور کیجئے ہند کے مسلمان پون صدی سے خواب خرگوش میں ہیں اور وقفہ وقفہ سے ان کو کوئی نہ کوئی جماعت ووٹ کی خاطر گود لیتی ہے ۔ آج ان پر ایسا وقت آگیا کہ ملک کے دلت ان کو بیدار کررہے ہیں۔ہند کے مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو قدیم روش پر چلنا ضروری سمجھتا ہے اور یہ طبقہ مسلمانوں کے اتحاد سے متعلق ناامید اور مایوس ہے اور ان کا نظریہ ہے کہ بھارت کے مسلمان کسی صورت میں بھی متحد نہیں ہوسکتے۔ اس وجہ سے کسی نہ کسی سیاسی گود کا سہارا ہی ضروری سمجھتے ہیں۔مسلمان اپنے خالق پر یقین کامل رکھیں اور اللہ کی رسی کو کامل اتحاد سے تھام لیں۔ مشکلیں آسان ہوں گی‘ ظلم کا خاتمہ ہوگا۔ مسلمانوں کا اللہ ایک رسول ایک اور قرآن ایک تو مسلمان ایک کیوں نہیں ہوسکتے۔ مسلمانوں سے بعد الموت قبر میں جو سوال ہوں گے اس میں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ کا فرقہ کیا ہے اور جو سوال ہونے والا ہے وہ خالق‘ دین ‘ رسولؐ سے متعلق ہوگا۔ اس پر توجہ کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کو انتشار اور خلفشار سے بچنا چاہیے اور ایک مضبوط اتحاد کے ذریعہ اپنے سیاسی طاقت کو مستحکم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
فرقہ پرست اور طاغوتی طاقتیں ایک دھرم جنون میں مبتلا ہیں اور اس جنون کی کیفیت میں یہ کیا کررہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں یہ خود سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کا صرفایک ہی مقصد خوف اور انتشار پھیلانا ہے۔
ملک میں جو حالات ہیں وہ صرف ایک دہے کی کوشش کا نتیجہ ہرگز نہیں ہوسکتے یہ جدوجہد کئی دہوں بلکہ صدیوں سے جاری خفیہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ عدم تشدد کے دعوے کرنے والے اور چھوت چھات کا خاتمہ کرنے والوں نے صرف دستور میں مساوات کا ذکر کیا لیکن دل سے عدم مساوات اور اعلیٰ ‘ ادنیٰ کی تفیق اور ایک فرقہ کی بالادستی اور برتری کے فلسفہ کے حامی تھے بلکہ پون صدی سے سیکولرازم کے سہارے سارے ملک میں صرف ایک فرقہ کی بالادستی کو برقرار رکھا۔ ایک قومی نظریہ اور دو قومی نظریہ کی پیدائش نے ملک کو تقسیم کردیا اور اس تقسیم کی بنیادی وجہ عدم مساوات کا فلسفہ معلوم ہوتی ہے۔ ایک قوم اور دو قوم کے تنازعہ میں ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے اور اب ایک قوم‘ ایک انتحاب‘ ایک دھرم ‘ یکساں سول کوڈ‘ یکساں انتخابات سے ملک میں کیا ہونے والا وہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن ملک کی ایک ریاست مغربی بنگال میں قومی ترانہ کے ساتھ صوبائی ترانے کے شروع ہونے کے آثار ظاہر ہورہے ہیں اس تعلق سے ممتا بنرجی نے واضح اشارہ دے دیا ہے۔ ایک قوم اور ایک انتخاب کا بل پارلیمان کے خصوصی اجلاس میں منظور ہوکر قانونی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کا منفی اثر ایک قوم اور متعدد صوبائی ترانوں کی شکل میں ظاہر ہوگا اور ملک میں جمہوری حکمرانی پر اس کے ناقابل تلافی نقصانات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ملک کے کمزور طبقات ایس سی ‘ ایس ٹی‘ اوبی سی بیدار ہیں اورحقوق کی حفاظت اور مساوات کیلئے جدوجہد اور تحفظ دستور اور جمہوریت کیلئے متحرک ہیں اور سوشیل میڈیا کے مختلف چینلس کے ذریعہ اپنے طبقات کو نہ صرف بیدار کررہے ہیں بلکہ ان کو متحد کرنے میں بھی مصروف ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے مشاغل سوشیل میڈیا پر صرف انتقامی مقاصد اور اپنے ہی سماج کے مجرمانہ حرکات کو ملک کے عوام پر ظاہر کرنا اور چھوٹی باتوں پر انتہائی جوش اور جذبہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنوں ہی کا قتل کرنا‘ آپ موجودہ چینلس کا جائزہ لیں تو سوائے چند چینلس کے سب اپنا وقت توانائی اور سرمایہ بے مقصد سوشیل میڈیا میں اپنا کردارادا کررہے ہیں۔
وقت کو غنیمت جانیں‘ اپنے خالق کا شکر ادا کریں جوش اور انتقامی جذبہ ترک کریں ایک دوسرے کے مددگار بنیں اور قوم ‘ ملک ‘ ملت کا نام ایک ناقابل تسخیر اتحاد سے روشن کریں اور باعمل قیادت تیار کریں۔ اختلافات کا خاتمہ کریں اور عفو ودرگزر سے کام لیں۔
دلت سماج مسلمانوں کو ساتھ دینے کی دعوت دے رہا ہے لیکن دلت سماج اور ان کے سرکردہ قائدین پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دلت سماج میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوکر سنگھ پریوار ان کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کرتا ہے اس کا خاتمہ کیا جائے کیوں کہ آر ایس ایس ان ہی کو استعمال کرتی ہے۔