آندھراوبہارکی حکومتیں اگر وقف ترمیمی بل کی حمایت کرتی ہیں تووہ مسلمانوں کے پیٹھ میں خنجرگھوپنے کا کام کریں گی:مولانا ارشدمدنی
انہوں نے کہا کہ وقف کو زندہ رکھنا ہمارامذہبی فریضہ ہے کیونکہ یہ اسلام کا ایک حصہ ہے اوراسلام وہ ہے جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا ہے یاپھر جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے احادیث میں ارشاد فرمایا ہے۔
نئی دہلی/پٹنہ‘ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آندھرااوربہارکے وزرائے اعلیٰ کو کھلے لفظوں میں یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ اگر انہوں نے اقتدارمیں بنے رہنے کے لئے وقف ترمیمی بل پر مرکزی حکومت کی حمایت کی تو مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھوپنے جیساہوگا۔ اس امر کا اظہارآج بہارکی راجدھانی پٹنہ میں منعقدہ تاریخی ‘تحفظ آئین ہند اورقومی یکجہتی کانفرنس’ میں شرکت کے لئے آئے ہوئے مسلمانوں کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق انہوں نے کہا کہ اب یہ دوہری سیاست نہیں چل سکتی کہ آپ ہماراووٹ لیں اورپھر اس ووٹ کی بنیادپر حاصل ہونے والے اقتدارکا استعمال آپ ہمارے خلاف کریں۔انہوں نے کہا کہ وقف کو زندہ رکھنا ہمارامذہبی فریضہ ہے کیونکہ یہ اسلام کا ایک حصہ ہے اوراسلام وہ ہے جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا ہے یاپھر جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے احادیث میں ارشاد فرمایا ہے۔
انہوں نے احادیث کے حوالوں سے یہ ثابت کیا کہ وقف کوئی نیاعمل نہیں ہے بلکہ یہ ابتدائے اسلام سے جاری وساری ہے۔عام ضرورت مند لوگوں کی مدداوردیگر نیک مقاصدکے تحت پچھلے چودہ سوسال سے لوگ اپنی املاک اورجائیدادیں اللہ کے نام پر وقف کرتے آئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا پرسنل لاء قرآن و سنت پر مبنی ہے جس میں قیامت تک کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی۔ایسا کہہ کر ہم کوئی ْغیرآئینی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ سیکولر آئین نے ہمیں اس کی مکمل آزادی دی ہے۔
اسی تناظرمیں مولانا مدنی نے وقف کے تعلق سے وزیراعظم کے حالیہ بیان پر سخت حیرت کا اظہارکیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آئین میں وقف کا کہیں ذکر نہیں ہے اس بیان پر اپنے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی انہوں نے وقف کولیکر یہ بات کہی ہے کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نماز ، روزہ حج اورزکوٰۃ کا بھی آئین میں کہیں ذکر نہیں ہے اس لئے انہیں بندکیاجاناچاہئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے ہم اس طرح کے کمزوربیان کی توقع نہیں کرتے تھے۔ انہیں اگر اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہے تو ان لوگوں سے وہ اس بابت معلومات حاصل کرسکتے تھے جو آئین کے جاننے والے ہیں ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آئین کی دفعہ 25 ۔26میں ملک کی تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی دی گئی ہے اوراسی مذہبی آزادی کا ایک اہم جزوقف ہے ، چنانچہ یہ ہمارامذہبی معاملہ ہے اس لئے اس کا تحفظ کرنا اوراسے زندہ رکھنا ہمارامذہبی فریضہ ہے ۔
اگروقف املاک کو تباہ کرنے والا اور وقف املاک کے قبضوں کی راہ ہموار کرنے والا یہ بل اگر پارلیا منٹ میں پیش کیا گیا تو جمعیۃ علماء ہندمسلمان، دوسری اقلیتوں اور تمام انصاف پسند لوگوں کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائے گی اس لئے کہ مسلمان ہر خسارے کو برداشت کر سکتا ہے لیکن شریعت میں کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کر سکتا ۔
جمعیۃعلماء ہند کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین نے ملک کو غلامی کی لعنت سے آزادکرانے کے لئے اس وقت تحریک شروع کی جب دوسری قومیں سورہی تھیں، 1832اور1857میں ملک کی آزادی کے لئے جو دوجہادہوئے وہ ہمارے علماء نے کئے تھے ، انگریزوں کی علماء سے نفرت اوردشمنی کا عالم یہ تھا کہ 1857میں 33ہزارسے زائد علماء کو پھانسیوں پر لٹکادیاگیا ، انہوں نے یہ بھی کہاکہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو ایک پلیٹ فارم مہیاکرنے کی غرض سے ہی جمعیۃعلماء ہند کا قیام عمل میں آیاتھا۔
انہوں نے زوردیکر کہا کہ ملک کی آزادی ہی نہیں ملک کا سیکولر آئین بھی ہمارے اکابرین کی جدوجہدکا نتیجہ ہے ، ورنہ دوقومی نظریہ کی بنیادپر ہونے والی تقسیم کے بعد کانگریس میں موجودایک بڑاطبقہ اس حق میں تھا کہ ملک کو ایک مذہبی مملکت بنادیاجائے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین کی ہی سوچ تھی کہ ملک کی آزادی ہندووں ،مسلمانوں، سکھوں اورعیسائیوں کو ایک ساتھ لائے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی چنانچہ انہوں نے اپنی آزادی کی جدوجہدمیں سب کو شامل کیا اورکامیاب رہے ۔
جمعیۃعلماء ہند اپنے اکابرین کے دکھائے گئے راستہ پر ہی چل رہی ہے۔ ملک کے ہر فردکے ساتھ پیارومحبت اوراحترام کے جذبوں کو روارکھنا اورمذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر ہر ایک کے ساتھ مذہبی رواداری سے پیش آنا جمعیۃعلماء ہند کامشن رہاہے ۔
انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستوں کی ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مختلف مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی علامتوں اور تشخص کے ساتھ دستور کے تحت ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔
انہوں نے ملک میں پھیلائی گئی نفرت کی سیاست پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جب ملک کے وزیراعظم اوروزیرداخلہ ہی مسلمانوں کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیان دیں توپھردوسرے لوگوں کو زہریلابیان دینے سے کون روک سکتاہے۔
آسام کے وزیراعلیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ شخص جب سے وزیراعلیٰ بناہے مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگل رہاہے ، مسلمانوں سے اس شخص کو اتنی نفرت ہے کہ یہ ان کا نام نہیں لیتابلکہ ان کو گھس پیٹھیا کہتاہے۔قابل ذکر ہے کہ جھارکھنڈکے حالیہ الیکشن میں بسوسرمانے ہرجگہ زہریلی تقریریں کیں اورمسلمانوں کو گھس پیٹھیاکہا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جھارکھنڈکے ہندوؤں مسلمانوں اور عیسائیوں نے مل کر اس شخص کی نفرت کی سیاست میں آگ لگادی ، ہمنتابسواسرماکو ایک زخم خوردہ شخص قراردیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ وہ آسام کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت چھین لینے کے خواب دیکھ رہاتھا اوراس کے لئے فرقہ پرست 1951کی مردم شماری کوشہریت کی بنیادبنانے کا مطالبہ کررہے تھے۔
مگر جمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں سپریم کورٹ کاجوفیصلہ آیا اس نے ا س کے ناپاک ارادوں پر پانی پھیردیا چنانچہ اب یہ لوگ اپنے زخم چاٹ رہے ہیں ، آسام شہریت معاملہ کے ساتھ ساتھ مدارس اوربلڈوزرکارروائی کو لیکر سپریم کورٹ کے فیصلوں اوراس سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند کی مستقل قانونی جدوجہد کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند بے بس اورکمزورطبقات ومظلوموں کے ساتھ ہر مصیبت کی گھڑی میں کھڑی رہی ہے اورایسا کرتے ہوے اس نے کسی کا مذہب نہیں دیکھا ۔
چند برس قبل کیرالامیں سیلاب سے ہونے والی زبردست تباہی کا ذکر بھی انہوں نے کیااورکہا کہ جمعیۃعلماء ہندنے وہاں متاثرین کو نئے گھر بناکردیئے ان میں مسلمانوں کے ساتھ ہندواورعیسائی بھی شامل تھے۔اسی تناظرمیں انہوں نے کہا کہ ملک میں کروڑوں کی تعدادمیں ایسے ہندوہیں جو نفرت کی سیاست کے خلاف ہیں اور ملک میں سیاست کے نام پر جو تخریبی کام ہورہا ہے اس کو وہ غلط سمجھتے ہیں۔
مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ ہمارے مسائل بہت ہیں لیکن وقف ترمیمی بل ایک اہم مسئلہ ہے ، ہم اس بل کو پوری طرح مستردکرتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی ایک بھی ترمیم ایسی نہیں ہے جس پر گفتگوکی جائے ، انہوں نے ایک بارپھر بہاراور آندھراکی حکومت کو باخبر کرتے ہوئے یہ کہا کہ وقف ہمارامذہبی معاملہ ہے اوروہ اگر خودکو سیکولر کہتی ہیں توانہیں اس پر اپنا موقف صاف اورواضح کردینا چاہئے اوراگر وہ اقتدارمیں بنے رہنے کے لئے اس کی حمایت کرتی ہیں تواس کا صاف مطلب ہوگاکہ انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپ دیا ہے ۔
اخیر میں انہوں نے کہا کہ ملک میں سیکولرزم اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی سماجی اور سیاسی تنظیمیں اور دیگر ادارے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف متحد ہو کر ان کے ناپاک عزائم کو ناکام کر دیں کیونکہ اگر ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اورعدل و انصاف سے کام نہیں لیا جائے گا تو اس ملک کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا ،جو اکثریت اور اقلیت دونوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔
کانفرنس کا آغاز قاری شمس الحق کی تلاوت کلام پاک اورمفتی سیدمعصوم ثاقب جنرل سکریٹری جمعیۃعلماء ہند کی نظامت سے ہوا۔ جمعیۃعلماء ہند کے نائب صدرمولانا اسجدمدنی نے کانفرنس کے اغراض ومقاصدپر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب تک دستورموجودہے تو آپ کی حفاظت ہوتی رہے گی مگر آج سب سے بڑامسئلہ دستورکے تحفظ کاہے ، اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمعیۃعلماء بہار نے آج اس تحفظ آئین ہند وقومی یکجہتی کانفرنس کا انعقادکیا ہے۔
انہوں نے بلڈوزر معاملہ میں جمعیۃعلماء ہند کی پٹیشن پر آئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کاخیرمقدم کیا اوراپنی خوشی کااظہاربھی کیا، جمعیۃعلماء اترپردیش کے صدرمولانا سیداشہدرشیدی نے اپنی مختصرتقریرمیں کہا کہ ملک کے حالات پریشان کن ضرورہیں مگر مایوس کن نہیں ہیں۔
سیدازہرمدنی نے اپنی تقریرمیں کہا کہ اصلاح معاشرہ جمعیۃعلماء ہند کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے ۔ قابل ذکرہے کہ کانفرنس میں بہت اہم پانچ تجاویز بھی پیش کی گئیں،جسے جمعیۃعلماء بہارکے عہدیداران مفتی نسیم ، مفتی محمد خالدبیگوسرائے ، مولانا محمد عباس ، مولانا عبدالباسط اورمولانا حیدرالاسلام نے پیش کیا ۔
خانقاہ مجیبہ کے سجادہ نشیں کے پیغام کو جمعیۃعلماء بہارکے ناظم مولانا مشہودندوی نے پڑھ کر سنایا،اجلاس میں شریک جم غفیرکا شکریہ صدرجمعیۃعلماء بہارمولانا بدراحمدمجیبی نے اداکیا،خطبہ استقبالیہ ڈاکٹراشفاق کریم نے پیش کیا۔ پروگرام میں جمعیۃعلماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کے متعدداراکین گرامی اورصوبائی جمعیۃعلماء کے صدراورجنرل سکریٹری صاحبان نے بھی شرکت کی ۔