نئی دہلی: دہلی پولیس نے مشرقی دہلی کے گاندھی نگر کے ایک اسکول میں بچوں کے سامنے مسلمانوں اور اسلام پر قابل اعتراض ریمارکس کرنے والی ایک ٹیچر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کوثر نامی خاتون نے کہا کہ ٹیچر نے نہ مسلمانوں بلکہ مذہب اسلام کے خلاف بھی نازیبا تبصرے کئے۔ اس نے خانہ کعبہ اور قرآن کی شان میں توہین الفاظ استعمال کئے۔ اس خاتون کے دو بچے اس اسکول میں پڑھتے ہیں۔
کوثر نے کہا کہ میرے دو بچے یہاں پڑھتے ہیں – ایک 7ویں جماعت میں اور دوسرا چوتھی کلاس میں۔ اگر ٹیچر کو سزا نہیں ملی تو دوسرے ٹیچروں کو بھی اس سے حوصلہ ملے گا اور وہ ہمارے دین کے بارے میں ایسی باتیں کریں گے۔
کوثر نے مزید کہا کہ ان سے کہا جائے کہ وہ صرف پڑھائیں اور ان باتوں پر نہ بولیں جن کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ہے… ایسے استاد کا کوئی فائدہ نہیں جو طلباء میں اختلاف پیدا کرے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹیچر کو اسکول سے ہٹا دیا جائے، اسے کسی بھی اسکول میں نہیں پڑھانا چاہئے کیونکہ وہ جہاں بھی جائے گی وہی کرے گی۔
دیگر والدین اور اسکول کے طلبا نے بھی میڈیا کے سامنے آکر بتایا کہ ٹیچر کا نام ہیما گلاٹی ہے اور جس دن چندریان مشن کامیاب ہوا تھا، اسی دن سے ٹیچر نے طلبا بالخصوں مسلم بچوں کے سامنے اسلام کی شان میں گستاخانہ باتیں کہی تھی۔
ڈی سی پی شاہدرہ روہت مینا نے اے این آئی کو بتایا کہ انہوں نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور جووینائل ویلفیئر آفیسر اور کونسلرز کی مدد سے طلباء کی کونسلنگ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حقائق کی بنیاد پر قانونی کارروائی کی جائے گی اور مناسب دفعات لگائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سرکاری اسکول ہے اور وہاں 2-3 طلباء تھے جنہیں کونسلنگ کی ضرورت تھی۔
گاندھی نگر کے ایم ایل اے انیل کمار باجپائی نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو اچھی تعلیم دینا ایک استاد کا فرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی استاد کا کسی مذہب یا مقدس مقام کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کرنا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جائے۔
یہ واقعہ اتر پردیش کے مظفر نگر میں ایک ٹیچر کے ایک معاملے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اس نے اپنے ایک مسلم طالب علم کو اس کے دیگر غیرمسلم طلبا کے ذریعہ تھپڑ رسید کروائے تھے۔
یہ واقعہ 24 اگست کو منصور پور پولیس اسٹیشن کے تحت کھبا پور گاؤں میں واقع نیہا پبلک اسکول میں پیش آیا۔ ٹیچر ترپتا تیاگی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن اس نے اسے معمولی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی تھی۔