ہندستان چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے: جے شنکر
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ چین نے ہندوستانی سرحد پر قبضہ کیا ہے لیکن یہ تمام تجاوزات 1958-59 کے دوران ہوئیں اور اب ہندوستان چین کے ساتھ سرحد پر معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

نئی دہلی: وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ چین نے ہندوستانی سرحد پر قبضہ کیا ہے لیکن یہ تمام تجاوزات 1958-59 کے دوران ہوئیں اور اب ہندوستان چین کے ساتھ سرحد پر معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے یہ بات ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستانی حکومت چین کے معاملے پر خاموش نہیں ہے لیکن کانگریس لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اپنے دور حکومت میں قبضہ کی گئی ہماری زمین کو تجاوزات قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ چین ہندوستانی سرحد میں آکر ہماری زمین پر قبضہ کر رہا ہے۔ اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک اور ہوائی حملہ ہوا لیکن چین پر خاموشی رہتی ہے، ڈاکٹر جے شنکر نے کہا، “چین پر کوئی خاموشی نہیں ہے۔ چین کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ لداخ میں چین نے ہماری سرزمین پر پل بنا لیا ہے۔ اگر آپ تفصیلات میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ پل ضرور بنایا گیا ہے۔ پینگونگ وہاں ایک جھیل ہے۔ پینگونگ پر چین نے 1958 میں قبضہ کر لیا تھا۔ اسی طرح کانگریس کا کہنا ہے کہ چین اروناچل پردیش میں ایک گاؤں آباد کر رہا ہے۔
لونگجو اروناچل پردیش کا ایک مقام ہے۔ اگر آپ پارلیمنٹ کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پنڈت نہرو نے 1959 میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ لونگجو کو چین نے آکر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
کانگریس کے ترجمان نے کہا تھا کہ چین نے وادی سشنکیانگ میں قراقرم کے نزدیک ایک لنک روڈ بنایا ہے۔ اس لنک روڈ کے ذریعے چین سیاچن کے نزدیک آجائے گا۔ یہ علاقہ 1963 میں ہندوستان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
وزیر خارجہ نے کہا، ’’وہ زمین چین کے پاس ضرور گئی ہے، لیکن یہ 1958 سے 1962 کے درمیان میں اور ہماری کوشش ہے کہ چین کے ساتھ سرحد پر کوئی معاہدہ ہو جائے۔ اس لیے کانگریس والے جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اب ہو رہا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ایسا اب نہیں ہو رہا بلکہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ 1962 میں ہم بغیر تیاری کے چلے گئے۔ نہ سڑکیں تھیں، نہ انفراسٹرکچر۔ ہمارے فوجیوں کو خوراک، گولہ بارود اور ہتھیاروں کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں تھا۔
انہوں نے کہا، "جو بھی بنیادی ڈھانچہ اب بنایا گیا ہے، پچھلے 10 برسوں میں بنایا گیا ہے۔ جب مودی جی حکومت میں آئے تو چین کی سرحد پر انفراسٹرکچر کی ترقی کا بجٹ 3500 کروڑ روپے تھا۔ اس وقت بجٹ 15000 کروڑ روپے ہے۔
لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی ایجنڈے میں خارجہ پالیسی شامل کرنے کے معنی کے بارے میں پوچھے جانے پر ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ یہ ایک عالمگیر دنیا ہے اور دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر ہر ملک پر پڑتا ہے۔ اس کا اثر ہر شہری پر پڑتا ہے۔
پہلے وہ دور تھا جب ہم خارجہ پالیسی کے بارے میں سوچا کرتے تھے کہ اگر کسی دور ملک میں کچھ ہو رہا ہے تو ہم کیوں پرواہ کریں، وہ دور اب ختم ہو چکا ہے۔ اب کہیں بھی کچھ ہوتا ہے، غزہ میں کچھ ہوتا ہے، یوکرین میں کچھ ہوتا ہے، اس کا اثر فوراً پوری دنیا پر پڑتا ہے۔
اگر یوکرین میں جنگ ہوتی ہے تو اس کا اثر پیٹرول کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ اگر بحیرہ اسود میں کچھ ہوتا ہے تو اناج کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر حوثی بحیرہ احمر میں حملہ کرتے ہیں تو سارا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر کسی کی زندگی میں کہیں نہ کہیں اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا موضوع یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل کو لگتا ہے کہ ہندوستان اب آبادی میں پہلے نمبر پر ہے، معیشت میں پانچویں نمبر پر، ہم جلد ہی تیسرے نمبر پر آجائیں گے۔ ایک طرح سے ہم تہذیبی طاقت ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنا ورثہ، اپنی ثقافت اور اپنی شناخت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ یہ ملک کے لیے فخر کی بات ہے، اس لیے ہمیں دنیا کو متاثر کرنا ہے اور دنیا بھی ہم پر اثر انداز ہوگی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ تیسری بات یہ ہے کہ آج اتنے لوگ تعلیم اور روزگار کے لیے باہر جاتے ہیں۔ تقریباً دو کروڑ ہندوستانی شہری دوسرے ممالک میں رہتے ہیں۔ اور کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ان کی سیکورٹی بھی ایک بڑا موضوع ہے۔ ہر 3-4 ماہ بعد کوئی نہ کوئی آپریشن ہوتا ہے۔ کسی کو لانا ہے، کسی کو بچانا ہے۔ اس لیے مودی کی گارنٹی صرف ہندوستان کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے، مودی کی گارنٹی باہر بھی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں، کیا ہندستان وہاں بھی مبصر بھیجے گا، ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ انتخابی عمل کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ ہندستان آئے ہیں۔ ان کی نیت مثبت ہے۔ ہم بھی انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ شاید ہم اگلے چند دنوں میں ان سے ملیں گے۔ ہمارے الیکشن پر جو تبصرے ہو رہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے نہیں بلکہ بیرون ملک بیٹھے میڈیا والوں کے ہیں۔