مشرق وسطیٰ

اسرائیل غزہ کی سرحد کے فلسطینی حصے پر ایک بفر زون علاقہ بنانا چاہتا ہے :ذرائع

مصری اور علاقائی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل نے کئی عرب ریاستوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ غزہ کی سرحد کے فلسطینی حصے پر ایک بفر زون [غیر جانبدار] علاقہ بنانا چاہتا ہے تاکہ جنگ کے خاتمے کے بعد انکلیو کی تجاویز کے حصے کے طور پر مستقبل میں ہونے والے حملوں کو روکا جا سکے۔

قاہرہ: مصری اور علاقائی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل نے کئی عرب ریاستوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ غزہ کی سرحد کے فلسطینی حصے پر ایک بفر زون [غیر جانبدار] علاقہ بنانا چاہتا ہے تاکہ جنگ کے خاتمے کے بعد انکلیو کی تجاویز کے حصے کے طور پر مستقبل میں ہونے والے حملوں کو روکا جا سکے۔

متعلقہ خبریں
روسی صدر کی مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے خاتمے میں مدد کی پیشکش
اسرائیلی فائرنگ میں پانچ افراد فوت
بے لگام اسرائیل دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے:شاہ اُردن
اسرائیل میں یرغمالیوں کی رہائی کیلئے 7 لاکھ افراد کا احتجاجی مظاہرہ

تین علاقائی ذرائع کے مطابق اسرائیل نے اپنے منصوبوں کا تعلق اپنے ہمسایہ ممالک مصر اور اردن کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات سے جوڑا جو 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا۔

العربیہ کے مطابق یہ اقدام اسرائیل کی جارحیت کے فوری خاتمے کی نشاندہی نہیں کرتا ہے- جو سات دن کی جنگ بندی کے بعد جمعہ کو دوبارہ شروع ہو گئی – لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل مصر یا قطر جیسے مسلمہ عرب ثالثوں کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے جبکہ وہ جنگ کے بعد کے غزہ کو ایک شکل دینا چاہتا ہے۔

کسی بھی عرب ریاست نے مستقبل میں غزہ میں امن وامان کے قیام یا وہاں کا انتظام سنبھالنے کے لیے کوئی آمادگی ظاہر نہیں کی ہے اور زیادہ تر نے اسرائیل کے حملے کی واضح الفاظ میں مذمت کی ہے جس میں 15,000 سے زیادہ افراد ہلاک اور غزہ کے شہری علاقے وسیع پیمانے پر مسمار ہو گئے۔ حماس نے7 اکتوبر کو اپنے حملے میں 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا تھا۔

تین علاقائی ذرائع نے قومیت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی جن میں سے ایک سینئر علاقائی سکیورٹی اہلکار نے کہا، "اسرائیل چاہتا ہے کہ یہ غیر جانبدار علاقہ (بفر زون) غزہ اور اسرائیل کے درمیان شمال سے جنوب تک ہو تاکہ حماس یا دیگر عسکریت پسندوں کو اسرائیل میں دراندازی یا حملہ کرنے سے روکا جا سکے۔”

مصری، قطری اور ترکی حکومتوں نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ اردنی حکام سے تبصرے کے لیے فوری رابطہ نہ ہو سکا۔

متحدہ عرب امارات کے ایک اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ کیا ابوظبی کو بفر زون کے بارے میں بتایا گیا تھا تو انہوں نے براہِ راست جواب نہیں دیا لیکن کہا: "استحکام اور فلسطینی ریاست کے حصول کے لیے متحدہ عرب امارات تمام متعلقہ فریقین کے اتفاقِ رائے سے جنگ کے بعد کے کسی بھی متفقہ انتظامات کی حمایت کرے گا۔”

بفر زون کے منصوبے کے بارے میں سوال پر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے مشیر برائے خارجہ پالیسی اوفیر فالک نے رائٹرز کو بتایا: "منصوبہ اس سے زیادہ تفصیلی ہے۔ یہ حماس کے (خاتمے) کے بعد کے تین مراحل پر روبعمل لانے پر مبنی ہے۔”

اسرائیلی حکومت کے مؤقف کا خاکہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا تین درجات میں حماس کو تباہ کرنا، غزہ کو غیر فوجی بنانا اور انکلیو کو غیر بنیاد پرست بنانا شامل ہے۔

انہوں نے کہا۔ "ایک بفر زون غزہ کو غیر فوجی بنانے کے عمل کا حصہ ہو سکتا ہے۔” جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ منصوبے عرب ریاستوں سمیت بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اٹھائے گئے ہیں تو انہوں نے تفصیلات پیش کرنے سے انکار کر دیا۔

عرب ریاستوں نے حماس کا صفایا کرنے کے اسرائیلی ہدف کو ناممکن قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ محض ایک عسکری قوت سے کہیں زیادہ ہے جسے شکست دی جا سکے۔

اسرائیل نے ماضی میں تجویز دی تھی کہ وہ غزہ کے اندر بفر زون پر غور کر رہا تھا لیکن ذرائع نے کہا ہے کہ اب وہ غزہ کے لیے اپنے مستقبل کے سکیورٹی منصوبوں کے حصے کے طور پر انہیں عرب ریاستوں کے سامنے پیش کر رہا تھا۔اسرائیلی فوجی 2005 میں انکلیو سے واپس چلے گئے تھے۔

ایک امریکی اہلکار جس نے شناخت ظاہر نہیں کی، کہا کہ اسرائیل نے بفر زون کا خیال پیش کیا تھا یہ بتائے بغیر کہ کسے پیش کیا۔ لیکن اہلکار نے فلسطینی سرزمین کے حجم کو کم کرنے والے کسی بھی منصوبے کی واشنگٹن کی مخالفت کو بھی دہرایا۔

اردن، مصر اور دیگر عرب ریاستوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے باہر نکالنا چاہتا ہے اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت فلسطینیوں کی زمین پر قبضے والی بات کو دہرایا۔ اسرائیلی حکومت ایسے کسی بھی مقصد سے انکار کرتی ہے۔

اسرائیل کے ایک سینئر سکیورٹی ذریعے نے کہا کہ بفر زون کے آئیڈیا کا "جائزہ لیا جا رہا تھا” اور مزید کہا: "اس وقت یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کتنا گہرا ہو گا اور آیا یہ ایک کلومیٹر یا دو کلومیٹر یا سینکڑوں میٹر (غزہ کے اندر) ہو سکتا ہے۔”

غزہ میں کوئی بھی تجاوزات جو تقریباً 40 کلومیٹر (25 میل) طویل اور تقریباً 5 کلومیٹر (تین میل) اور 12 کلومیٹر (7.5 میل) چوڑائی کے درمیان ہو، وہ اس کے 2.3 ملین لوگوں کو اس سے بھی چھوٹے علاقے میں ٹھونس دے گی۔

واشنگٹن میں ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ اسرائیلی دفاعی اسٹیبلشمنٹ "غزہ کی سرحد پر کسی طرح کے حفاظتی بفر کے بارے میں بات کر رہی ہے تاکہ حماس سرحد کے قریب فوجی صلاحیتیں جمع اور اسرائیل کو دوبارہ حیران نہ کر سکے۔”

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "یہ ایک حفاظتی اقدام ہے، سیاسی نہیں۔ ہم سرحد کے غزہ کی جانب رہنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔”

اب تک مصر جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے والی پہلی عرب ریاست ہے اور قطر جس کے اسرائیل سے باضابطہ تعلقات نہیں ہیں لیکن مواصلاتی راستے کھلے ہیں، یہ دونوں ممالک اسرائیل کے ساتھ ثالثی کی بات چیت کا مرکز رہے ہیں جن میں حماس کی قید میں اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے تبادلے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔