جموں و کشمیر

نیشنل کانفرنس خواتین زیرویشن بل کیخلاف نہیں ہیں: عمرعبداللہ

عمرعبداللہ کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس خواتین ریزرویشن بل کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں خواتین کو نمائندگی کا موقع ملنا چاہئے۔

سری نگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس خواتین ریزرویشن بل کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں خواتین کو نمائندگی کا موقع ملنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اس بل سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا نہ ہمیں اس پر کوئی اعتراض ہے۔

متعلقہ خبریں
تلنگانہ ہائی کورٹ میں تحقیقاتی کمیشن کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست مسترد
فاروق عبداللہ کو ریاستی درجہ کی جلد بحالی کی امید
تشکیل حکومت کا دعویٰ بہت جلد کیا جائے گا: فاروق عبداللہ
اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں امریکہ کا فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں: کملا ہیرس
خواتین تحفظات قانون میں مسلم اور اوبی سی خواتین کیلئے کوٹہ مختص کیا جائے:جماعت اسلامی ہند

موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار منگل کو یہاں نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرنے کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا: ‘ہم خواتین ریزرویشن بل کے خلاف نہیں ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مائوں، بہنوں کو بھی نمائندگی کا موقع ملنا چاہئے جو ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں’۔

ان کا کہنا تھا: ‘اس بل سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہے ہمارے پاس خواتین امیدواروں کی کوئی کمی نہیں ہے ہماری باقاعدہ ایک خواتین ونگ ہے اور ہماری خواتین امیدواروں میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے’۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ ہمیں کسی بل سے نقصان نہیں ہے لیکن ان لوگوں سے نقصان ہے جو یہاں الیکشن کرانے سے ڈرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بل سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ان لوگوں سے خطرہ جو یہاں الیکشن کرانے سے خوف محسوس کر رہے ہیں۔

کوکرناگ انکائونٹر کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ‘اس انکائونٹر میں ہمارے 4 جوان جاں بحق ہوئے جس سے پتہ لگتا ہے کہ یہاں حالات کیسے ہیں’۔

سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سری نگر کے آس پاس حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باہر ایسا نہیں ہے۔انہوں نے کہا: ‘یہ لوگ گالف کھیلتے نظر آتے ہیں جی ٹونٹی کا نظارہ دکھایا گیا لیکن زمینی سطح کے حالات سری نگر سے باہر دیکھئے’۔

دریں اثںا پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ نے اس بل کو بڑا قدم قرار دیتے ہوئے کہا: ‘میں خوش ہوں کہ بالآخر خواتین بل اب ایک حقیقت بن جائے گی’۔انہوں نے ‘ایکس’ پر پوسٹ میں کہا: ‘آبادی کا نصف حصہ ہونے کے باوجود ہماری نمائندگی بہت کم تھی’