سیاست

اب نشہ فیشن بننے لگا…!

ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے‘‘اچھے دوست توباعث رحمت ہوتے ہیں مگر برے دوست مسلسل عذاب بن جاتے ہیں ایسے ہی دوست نشے کی طرف بھی راغب کرتے ہیں۔

ش۔ جلیل

ہندوستان تیسری دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں صحت ،تعلیم ،روزگار ،کاروبار،صنعت وحرفت کے مناسب مواقع نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد مختلف قباحتوں کا شکار ہے… عدل وانصاف اورتھانہ کچہری کے معاملات انسان کو ایک ایسے دوراہے پرلاکرکھڑا کردیتے ہیں جہاں پر ڈپریشن ،فرسٹریشن اوراسی طرح کے دیگرامراض انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جس سے انسان اپنی صحت خراب کربیٹھتا ہے ،حالانکہ جان ہے توجہان ہے کے فارمولے کے تحت انسانی زندگی کے لئے سب سے بڑی نعمت اچھی صحت ہے: اچھی صحت ہی کی بدولت انسان ِ زندگی کی خوشیوں اورمسرتوں سے لطف اندوز ہوسکتا ہے اورزندگی کے ہرشعبے میں فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔ خراب صحت ’بوجھل دماغ ‘زندگی کی رنگینیوں کودھندلادیتی ہے اورزندگی بوجھ لگنے لگتی ہے۔

نشے کی لعنت نے جس تیزی سے ملک بھر میں اپنی جڑیں پھیلارکھی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ بدقسمتی سے قانون نافذکرنے والے اداروں کی نااہلی کہیں یا پھر بااثر مافیاکی مضبوط گرفت سے ڈرگ اسمگلنگ کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ شہروں اوردیہاتوں کی تفریق کئے بغیرمنشیات کا عفریت نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لیتا جارہا ہے۔

انسداد منشیات کا عالمی دن رواں برس اقوام متحدہ کے دیئے گئے اس تھیم کے ساتھ منایاجارہا ہے کہ ’’صحت اورانسانی بحرانوں میں منشیات کے چیلنجوں سے نمٹنا‘‘کیسے ہوگا؟ ہم میںسے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ منشیات سے مراد ایسی اشیاء جو انسان کی ذہنی کیفیتوں اوررویوں کوبدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، آج سے دودہائی پہلے تک نشہ کی جب اقسام کے بارے میںلوگ زیادہ آگا ہ تھے وہ چرس ،افیون، ہیروئن ، کوکین اورالکوحل تھے جبکہ اب سرنجوں سے نشہ،شیشہ حقہ اورآئس کا نشہ بھی عام ہوچکا ہے۔ نشہ استعمال کرنے والے افراد کی اکثریت 25سے39سال کی عمر میں ہے۔

منشیات کا عالمی دن منانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو اس ناسورسے کیسے بچایا جائے۔ نشے سے آگاہی اورلوگوں میں شعور اجاگرکیا جائے۔ اس دن کی مناسبت سے سوال اٹھتا ہے کہ نوجوان نسل سے اس لعنت کا چھٹکارہ کیسے ممکن ہے…؟ وہ کون سے اقدامات ہیں جن کے کرنے سے معاشرہ اس ناسور سے خلاصی حاصل کرسکتا ہے…؟

ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے‘‘اچھے دوست توباعث رحمت ہوتے ہیں مگر برے دوست مسلسل عذاب بن جاتے ہیں ایسے ہی دوست نشے کی طرف بھی راغب کرتے ہیں۔ بے سکونی…خواہشات کی عدم تکمیل …سوسائٹی کے اثرات ‘ناپختہ ذہنوں کی اصلاح‘ پیسے کی دوڑ‘ والدین کی عدم توجہی‘ تعلیمی اداروں کا آزادماحول‘ روشن خیالی کی تازہ لہر تعلیم یافتہ بے روزگاری ‘گھریلوذمہ داریوں سے فرار کی ناممکن کوشش اورایسے ہی ہزاروں مسائل ہیں جو نشے جیسی لعنت اورمعاشرتی ناسورکی جڑیں ہیں۔ جس سے نوجوان نسل کے نمائندے انتڑیوں کی جھلیوں کی سوزش ،یعنی جسمانی ودماغی نقائص کی ابتداء ‘بے خوابی کے مسائل انتہاپسندی کی اذیت‘جنونی کیفیات کے ساتھ ساتھ جزوی اندھاپن: اداسی جیسی جسمانی‘ نفسیاتی اورذہنی بیماریوں کو دعوت عام دیتے ہیں۔

علاوہ ازیں جرائم کی شرح میں اضافہ،انسانوں کی زندگیوں کو مفلوج،خاندانی اورملکی معیشت کی تباہی،غصے اورآدم بیزاری کا سبب بن رہی ہے۔لہٰذامعاشرے کے ہر فرد پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ نشے کی لعنت میں مبتلا ایسے اشخاص کا بغور جائزہ لیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کالج اوریونیورسٹی میں پہنچتے ہی طلباء آزادی محسوس کرنے لگتے ہیں، وہ اپنی مرضی سے وہ سب کچھ کرنا شروع کردیتے ہیں جو انہیں دوسرے طلباء سے الگ اورممتاز بنادے ’بدقسمتی سے یہ ماحول تعلیمی اداروں اورہوٹلوں میں میسرہے ،جہاں نشہ کرنے اور منشیات فراہم کرنے والوں کی کمی نہیں…

نمودونمائش میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس کے ساتھ انسانی خواہشات بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک زمانے میں صبر‘ قناعت پسندی اور دوراندیشی جیسے دیرپا اصولوں کواپنا شعار سمجھا جاتا تھا مگر نفسانفسی کا یہ عالم ہے کہ ہرشخص دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ خواہشات کی عدم تکمیل بھی نشے کی لعنت میں مبتلا ہونے کا باعث بنتی ہے ۔ ملک میں غربت اورناخواندگی کی وجہ سے اکثر بچے چھوٹی عمر میں ہی روزگار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے بچے جو چھوٹی چھوٹی صنعتوں ‘ کارخانوں یادکانوں وغیرہ میں کام کرتے ہیں ،اپنے ساتھیوں یابڑی عمر کے لوگوں کی دیکھا دیکھی منشیات کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ جبکہ کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے پیسے کی فراوانی کی وجہ سے نشے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں، ان کا بہترحل ماہرین یہ تجویز کرتے ہیں کہ بچوں کو وافرپیسے نہ دیئے جائیں‘ ْخواتین کی ذمہ داری اس وقت بہت بڑھ جاتی ہے جب ان کا کوئی اپنا نشے کے عادی بن چکے ہوں۔ ایسے افراد کی بحالی کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔

٭نشے میں مبتلا افراد کی ہمت بندھانا ہوگی‘ انہیں علاج کیلئے ذہنی طورپر تیار کرنا ہوگا‘ انہیں نفرت کرنے والوں اورطعنے دینے والوں سے دوررکھنا ہوگا‘ انہیں فارغ نہ بیٹھنے دیا جائے کہیں و ہ دوبارہ نشے کی عادت کاشکار نہ ہوجائیں ‘ اچھی اور پسندیدہ خوراک دینا ہوگی‘ نشے کے عادی افراد کی ظاہری علامات بہت آسان ہیں۔ ایسا شخص انتہائی کمزور‘ دبلا پتلا اور سست دکھائی دیتا ہے جبکہ اس کا چہرہ سیاہ اورآنکھیں زرد ہوتی ہیں۔ اکثر آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوتے ہیں‘ ہاتھوں کی انگلیوں اوردانتوں کی رنگت سے اس کے نشئی ہونے کا بآسانی پتہ چل جاتا ہے ،اکثریہ 14یا 32سال تک کے نوجوان ہوتے ہیں۔

اصلاح واحوال کی خاطر نشے کے عادی افراد کو جیلوں میں بھیجنے کی بجائے ایسے اداروں میں بھیجا جائے جہاں ان کی بحالی کا بہتر انتظام ہو۔ والدین‘ اساتذہ اورعلما نشے کے مضمرات پربے قاعدگی سے روشنی ڈالتے رہیں،تاکہ ہرشخص دلی طورپر اس لعنت سے نفرت کرنا شروع کردے، بہت ضروری امرہے کہ ریڈیو ‘ ٹیلی ویژن اوراخبارات، جرائد کے ذریعے عام لوگوں کو تعلیم دی جائے تاکہ اس لعنت سے خود بھی اورخاندان کے دیگر افراد کومحفوظ رکھ سکیں۔

٭٭٭