حیدرآباد

تاریخی سردار محل کی بحالی آخری مرحلے میں داخل، آئندہ سال عوام کیلئے کھول دیا جائے گا

اس پراجیکٹ کی نگرانی قلی قطب شاہ اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (QQSUDA) کر رہی ہے، جبکہ بحالی کا کام ایک پرائیویٹ فرم کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔ حکومت تلنگانہ نے اس عمارت کو ایک ثقافتی مرکز، آرٹ اسٹوڈیو اور چھوٹے کیفے کے ساتھ سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

حیدرآباد: حیدرآباد کے چارمینار کے مشرقی حصے میں واقع تاریخی سردار محل کی بحالی کا کام تیزی سے جاری ہے اور آئندہ سال اپریل تک مکمل ہونے کی توقع ہے، جس کے بعد اس شاہکار عمارت کو عام عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں
جمعہ: دعا کی قبولیت، اعمال کی فضیلت اور گناہوں کی معافی کا سنہری دن،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کی قیادت میں جامعہ عثمانیہ میں اردو کے تحفظ کی مہم — صحافیوں، ادبا اور اسکالرس متحد، حکومت و یو جی سی پر دباؤ میں اضافہ
مولانا محمد علی جوہرنے تحریک آزادی کے جوش میں زبردست ولولہ اور انقلابی کیفیت پیدا کیا: پروفیسر ایس اے شکور
کےسی آر کی تحریک سے ہی علیحدہ ریاست تلنگانہ قائم ہوئی – کانگریس نے عوامی مفادات کوبہت نقصان پہنچایا :عبدالمقیت چندا
اردو اکیڈمی جدہ کے وفد کی قونصل جنرل ہند سے ملاقات، سرگرمیوں اور آئندہ منصوبوں پر تبادلۂ خیال

 بحالی کے بعد سردار محل کو جدید طرز پر آرٹ گیلری، کیفے اور ہیریٹیج رہائشگاہ کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے، بالکل راجستھان کے مشہور نیمرا نہ فورٹ پیلس کی طرز پر۔

اس پراجیکٹ کی نگرانی قلی قطب شاہ اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (QQSUDA) کر رہی ہے، جبکہ بحالی کا کام ایک پرائیویٹ فرم کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔ حکومت تلنگانہ نے اس عمارت کو ایک ثقافتی مرکز، آرٹ اسٹوڈیو اور چھوٹے کیفے کے ساتھ سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

 یہ عظیم الشان پروجیکٹ 30 کروڑ روپے کی لاگت سے پورا کیا جا رہا ہے اور تکمیل کے بعد یہ پرانے شہر کے اہم ترین سیاحتی مراکز میں شامل ہوگا۔

قلی قطب شاہ اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف انجینئر بی گوپال کے مطابق کام تیزی سے جاری ہے اور مقررہ وقت میں مکمل کر لیا جائے گا، جس کے بعد اس تاریخی عمارت کو دوبارہ استعمال میں لایا جائے گا۔

ماہرینِ تاریخ کے مطابق سردار محل 1900 میں نظام ششم میر محبوب علی خان نے یورپی طرزِ تعمیر پر اپنی محبوب بیگم سردار بیگم کے لیے بنوایا تھا۔

 لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سردار بیگم نے اس محل میں رہنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ یہ ان کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔ نتیجتاً عمارت خالی رہی، مگر اس کا نام سردار محل ہی پڑ گیا۔

بعد میں اس عمارت کو ہیریٹیج اسٹرکچر قرار دیا گیا اور ہیریٹیج کنزرویشن کمیٹی اور INTACH نے اسے محفوظ یادگار کے طور پر درج کیا۔ جی ایچ ایم سی نے 1965 میں سردار محل کو بقایا ٹیکسز کی وجہ سے اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔

اب کئی دہائیوں بعد، سردار محل ایک بار پھر اپنی شان و شوکت کے ساتھ زندہ ہونے والا ہے، اور شہریوں و سیاحوں کے لیے ایک نئی پہچان بننے جا رہا ہے۔