دہلی

مدارس، بچوں کیلئے تعلیم حاصل کرنے غیرموزوں مقام۔ این سی پی سی آر کا سپریم کورٹ میں بیان

قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق ِ اطفال (این سی پی سی آر) نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ دینی مدارس بچوں کے لئے مناسب تعلیم حاصل کرنے غیرموزوں مقامات ہیں اور وہاں دی جانے والی تعلیم جامع نہیں ہے اور یہ حق ِ تعلیم ایکٹ کی دفعات کے خلاف ہے۔

نئی دہلی: قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق ِ اطفال (این سی پی سی آر) نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ دینی مدارس بچوں کے لئے مناسب تعلیم حاصل کرنے غیرموزوں مقامات ہیں اور وہاں دی جانے والی تعلیم جامع نہیں ہے اور یہ حق ِ تعلیم ایکٹ کی دفعات کے خلاف ہے۔

متعلقہ خبریں
تلنگانہ میں 104 امیدواروں کے خلاف فوجداری مقدمات درج
نابالغ کی عصمت ریزی کیس: راہول کے ٹوئٹ پر این سی پی سی آر کوجواب داخل کرنے کی ہدایت
این سی ای آر ٹی نے نصابی کتاب سے متنازعہ سیاسی کارٹون ہٹا دیا
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ

بچوں کے حقوق کے ادارہ نے عدالت ِ عظمیٰ کو بتایا کہ جو بچے باقاعدہ اسکولنگ سسٹم میں نہیں ہیں وہ ابتدائی تعلیم کے اپنے بنیادی حق بشمول دوپہر کا کھانا‘ یونیفارم وغیرہ سے محروم ہیں۔

این سی پی سی آر نے کہا کہ مدارس تعلیم دینے کے نام پر محض چند این سی ای آر ٹی کتابیں پڑھارہے ہیں اور اس بات کو یقینی نہیں بناتے کہ بچوں کو رسمی اور معیاری تعلیم حاصل ہوسکے۔

این سی پی سی آر نے عدالت عظمیٰ میں اپنے تحریری بیان میں کہا کہ مناسب تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدارس نہ صرف ایک غیرموزوں مقام ہیں بلکہ حق ِ تعلیم ایکٹ کی دفعہ 19‘ 21‘ 22‘ 23‘ 24‘ 25 اور 29 کے تحت فراہم کئے گئے حقوق بھی نہیں دیئے جاتے۔

علاوہ ازیں مدارس نہ صرف تعلیم کے لئے ایک غیراطمینان بخش اور ناکافی نمونہ پیش کرتے ہیں بلکہ ان کا اندازِ کارکردگی بھی من مانی ہوتا ہے جو مکمل طورپر معیاری نصاب اور کام کاج سے محروم ہوتا ہے۔ حقوق ِ اطفال ادارہ نے کہا کہ آر ٹی ای ایکٹ 2009 کی دفعات کے عدم نفاذ کی وجہ سے مدارس 2009 کے قانون کی دفعہ 21 کے تحت حقوق سے محروم ہیں۔

این سی پی سی آر نے کہا کہ ایک مدرسہ من مانی انداز میں کام کرتا ہے اور دستوری ذمہ داریوں‘ آر ٹی ای ایکٹ اور جوینائل جسٹس ایکٹ 2015 کی مکمل طورپر خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے والا بچہ اسکولی نصاب کی بنیادی معلومات سے محروم ہوگا جو کہ اسکول میں فراہم کی جاتی ہیں۔

آر ٹی ای ایکٹ 2009 کی دفعہ 2(n) کے مطابق اسکول کا مطلب کوئی بھی مسلمہ اسکول جو ابتدائی تعلیم فراہم کرتا ہے‘ اس تعریف سے باہر ہونے والے مدرسہ کو اس بات کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ بچوں یا ان کے ارکان ِ خاندان کو مدرسہ کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کریں۔

اس میں کہا گیا کہ زیادہ تر مدارس طلبا کو ایک جامع ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں جن میں سماجی تقاریب کی منصوبہ بندی‘ تجرباتی تعلیم کے لئے زائداز نصاب سرگرمیاں شامل ہیں۔

یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ سپریم کورٹ نے 5 اپریل کو دینی مدارس کے تقریباً 17 لاکھ طلبا کو راحت فراہم کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم پر روک لگادی تھی جس کے ذریعہ اترپردیش مدرسہ بورڈ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیردستوری اور سیکولرازم کے اصولوں کے مغائر قراردیتے ہوئے منسوخ کردیا تھا۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرصدارت سہ رکنی بنچ نے درخواستوں میں اٹھائے گئے مسائل کو گہرے غوروخوض کے متقاضی قراردیتے ہوئے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف مرکز‘ حکومت اترپردیش اور دیگر کو نوٹس جاری کی تھی۔