
محمد ضیاءالدین
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہرمقام پر دینی تعلیم کے مدارس کے جلسوں کا ایک سیلاب سا آجاتا ہے جن میں کہیں مدرسے کے طلباء کی سرگرمیوں کا مظاہرہ ہوتا ہے تو کہیں نامور علماے کرام کے خطاب رکھے جاتے ہیں اور ان جلسوں کے انعقاد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ لوگ ماہ رمضان میں اپنی زکوٰۃ و دیگر مد میں دیے جانے والے عطیات ان مدارس کو ہی دیں کہ یہ مدارس لوگوں کی مدد پر ہی چلتے ہیں۔ وہیں دیگر تنظیمیں فلاحی ادارے بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کوئی ایسا کام کررہا ہوتا ہے جس کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں مانگنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جو حصول زکوٰۃ کے لیے میدان عمل میں ڈٹ جاتی ہے اور ہر ایک کے پاس اپنی اپنی مجبوری یا ضرورت کی ایک دلدوز کہانی ہوتی ہے اور یوں مسلمانوں کی ساری زکوٰۃ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر جاتی ہے اور معاشرے میں اس کے کہیں کوئی اثرات نظر نہیں آتے کہ اگلے سال یہ سارے زکوٰۃ کے دعویدار پھر اسی مقام پر نظر آتے ہیں اور پھر وہی سوال ہوتا ہے۔ اگر ایساہی ہے تو پھر کیا یہ بات باعث فکر نہیں کہ آخر ہماری زکوٰہ کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟ اور ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے اور یہ بات محض زکوٰۃ تک محدود نہیں بلکہ ہر شعبہ حیات میں ہمیں یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے کہ خرچ کے لیے ہماری ترجیحات طئے نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک صاحب نے بتایا کہ فلاں صاحب جنھوں نے جس علاقے میں زمین خرید کر پلاٹنگ کی تھی، اسی علاقے میں تقریباً دو کروڑ کے خرچ سے ایک مسجد تعمیر کرنے والے ہیں۔ ظاہر ہے مسجد کی تعمیر جیسے مستحسن کام پر کسے کیا اعتراض ہوسکتا ہے، لیکن ضرورت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ وہ جس علاقے میں مسجد کی تعمیر کرنا چاہتے تھے وہاں پہلے ہی کئی مساجد موجود ہیں اور جو ایک دوسرے سے کافی قریب قریب ہیں تب وہاں مسجد کی کیا ضرورت؟ لیکن ان کا جذبہ ایمانی ان دلیلوں کو نہیں مانتا۔ میں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ اتنا خرچ کر کے مسجد بنا رہے ہیں تو ایک کام کیجیے کہ مسجد کی آرائش و زیبائش پر بہت زیادہ خرچ نہ کرتے ہوئے مسجد کے احاطے میں ایک ہاسٹل بنائیے اور باہر کے وہ طلباء جو حصول تعلیم کے لیے یہاں آتے ہیں، انہیں مفت رہائش مہیا کیجیے یا برائے نام کرایے پر دیجئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ باہر کے غریب طلباء کو اتنی ہی راحت ملے گی،وہیں انھیں ایک دینی ماحول ملے گا اور مسجد کے احاطے میں ہونے کے سبب وہ نمازوں کی پابندی کریں گے اور عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ دیندار بھی بنیں گے۔ انھوں نے میری اس تجویز پر نہایت خوشی کا اظہار کیا لیکن جب تعمیری کام ہوا تو مجوزہ ہاسٹل کا کہیں نام و نشان نہ تھا جب میں نے اس پر استفسار کیا تو وہ ہنس کر ٹال گئے۔ ظاہر ہے پیسہ ان کا ہے تو خرچ کا حق بھی انہی کا ہے۔ گو کہ پیسہ ان کا ہے لیکن یہ پیسہ ملت کا بھی تو ہے اور اگر اس کا استعمال ملت کے وسیع مفاد کے لیے ہوا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ بہر حال ہر جگہ یہی کیفیت ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں میں جب سے مسلمانوں کے مالی حالات درست ہوئے ہیں، مسلمانوں کے ایک طبقہ کا جذبہ خیر خواہی قابل تعریف اور قابل تقلید ہے۔ کبھی یہ حالت تھی کہ مساجد وغیرہ کی معمو لی ضروریات کے لیے چندہ کرنا پڑتا تھا تب بھی خاطر خواہ کام نہیں ہو پاتا تھا اور آج یہ ہے کہ بڑے بڑے اخرجات کی ذمہ داری بھی کوئی ایک ہی شخص اٹھا رہا ہے اور تو اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کہیں کسی مسجد کی تعمیر دوچار افراد نے بلکہ کہیں تو فرد واحد نے ہی کردی اور کسی سے کوئی چندہ اعانت نہیں لی گئی۔ سخاوت کی ایسی لہر چلی کہ ضرورت مندوں کی ضروریات کی تکمیل دو چار یا ایک آدھ اہل خیر ہی کردیتا ہے نہ صرف یہ بلکہ جب جب بھی کہیں آسمانی آفت آئی یا نا گہانی صورتحال پیش آئی، متاثرین کی ہر طرح سے مدد کے لیے پیش قدمی کرنے والوں میں مسلمان ہی پیش پیش رہے ہیں۔ اس کے نظارے گزشتہ کورونا وباء کے دور میں جابجا دیکھنے ملے، اس انتہائی آزمائش کے دور میں مسلمانوں کے اہل خیر حضرات اشیاے ضروریہ کی گاڑیاں لے کے غریب بستیوں کی طرف چل پڑے تاکہ کوئی بھوکا نہ رہنے پائے اور اس کارخیر کے وقت ان کے پیش نظر صرف انسان تھے۔ انھوں نے کسی کی ذات دھرم نہیں دیکھی۔ حالات کے مارے اپنوں کے ستائے اپنے گھروں کو پیدل چل پڑنے پر مجبور بھوکے پیاسے لوگوں کو راستے میں کھانا پانی دینے والے بھی مسلمان ہی تھے۔ اور تو اور وہ وہ فریضہ بھی انجام دے رہے تھے جو ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ اپنے ان برادران وطن کی آخری رسومات کی انجام دہی کا کام بھی کر رہے تھے جو ان کے رشتہ دار بہ سبب خوف کے کرنے سے گریزاں تھے ۔
یہ تو ہوا تصویر کا ایک رخ جو بڑا ہی دلکش ہے اور اسے دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے، لیکن اس تصویر کا جو دوسرا رخ ہے وہ بڑا ہی افسوس ناک ہے جہاں ایک طرف مسلمانوں کے جذبہ خیر کی جھلکیاں دیکھنے ملتی ہیں، وہیں مسلمانوں کے اس جذبہ خیر کے استحصال کی شرمناک تصاویر بھی آے دن سامنے آکر ملت کو شرمسار کرتی ہیں جہاں یہ معاملہ ہے کہ مساجد مدارس کے معاملے میں ایسے کندھے موجود ہیں جو بڑی بڑی ذمہ داریوں کو سنبھالنے تیار ہیں، وہیں دوسری طرف ایسے گروہ بھی موجود ہیں جو مدارس و مساجد کے نام پر ملت کا سرمایہ کتر رہے ہیں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی نئی بستیاں بستی ہیں اور عام طور پر یہ غریب مسلمانوں کی ہوتی ہیں وہاں سب سے پہلی فکر مسجد کی ہوتی ہے جو کہ ایک نہایت مستحسن بات ہے اور دین سے وابستگی کا ثبوت بھی، ظاہر ہے ان بستیوں کے مکین اپنے بل پر مساجد بنانے سے رہے کہ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اب کچھ لوگ اس نئی مسجد کی تعمیر کے لیے ملت سے اعانت کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ یہاں بھی دو طرح کے لوگ ہوتے، ایک تو وہ جو نہایت اخلاص سے اور جذبہ ایمانی کے تحت اس کام کے لیے دیوانہ وار نکل پڑتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل میں جٹ جاتے ہیں جب کہ دوسرا ایک گروہ ہوتاہے جس نے مساجد کے نام پر چندے کا دھندہ بنا رکھا ہے اور افسوس کی بات یہ کہ زیادہ تعداد دوسرے گروہ کی ہے، وہ چندہ وصولنے کے لیے آئے دن مسجد میں کوئی نہ کوئی ایساکام نکالتے ہیں جس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے لیکن جب یہ مسجد کے نام پر مانگتے ہیں تو لوگ جذبہ خیر اور کارخیر کے طور پر اپنی کمائی میں سے کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں، یہ جانے بوجھے بغیر کہ جو رقم جمع کی جارہی ہے وہ کہاں خرچ کی جارہی ہے اور یہ بھی کہ آیا واقعی خرچ کی جارہی ہے بھی یا نہیں ؟ ایک صاحب خیر کے پاس کچھ لوگ آئے اور ان سے مسجد کے تعمیری کام کے لیے چندہ مانگا، انھوں نے تفصیلات طلب کیں تو پتہ چلا کہ مسجد کے سیکنڈ فلور پر چھت ڈالنے کے لیے چندہ درکا ر ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ مسجد میں نماز فجر میں کتنی صفیں ہوتی ہیں تو چندہ مانگنے والے بغلیں جھانکنے لگے کہ کئی مساجد کی طرح وہاں بھی فجر میں ایک صف بھی مکمل نہیں ہوتی بلکہ دیگر نمازوں کی بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ اس پر انھوں نے آئے ہوئے حضرات سے کہا کہ جب مسجد کے گراونڈ فلور پرہی نمازی نہیں تو یہ دوسرے منزلے کی تعمیر چہ معنی دارد؟ جواب ملا کہ جمعہ کے روز نمازیوں کی کثرت کے سبب جگہ کم پڑجاتی ہے۔ گویا کہ صرف جمعہ کی نماز کے لیے ملت کا کثیر سرمایہ استعمال کیا جارہا ہے۔ رمضان سے پہلے ایک دیہات کی مسجد میں امام صاحب کھڑے ہوگئے اور بتایاکہ چونکہ رمضان کی آمد آمد ہے اس لیے مسجد کے لیے دو کولر کی ضرورت ہے۔ جبکہ مسجد کے اطراف کھلا ماحول اور کھیتوں سے آنے والی ہوا کے سبب بظاہر کولر کی کوئی ضرورت نظر نہیں آئی ،خیر دوسری ضرورت اس الکٹرانک گھڑی کی بیان کی گئی جس کی قیمت پانچ ہزار یا اس سے کچھ زائد ہے۔ کامن سینس کی بات یہ کہ گھڑی کی ضرورت وقت دیکھنے کے لیے ہے اور اس ضرورت کی بہتر تکمیل ایک ہزار کی گھڑ ی سے بھی ہوسکتی ہے، لیکن چوں کہ پیسہ ملت کا ہے سو چاہے جتنا خرچ ہو۔ یہ بھی ہے کہ جب جب ایسے مطالبات ہوتے ہیں، لوگ کوئی سوال نہیں کرتے بلکہ اس میں حصہ لینا باعث ثواب سمجھتے ہیں اور اکثر و بیشتر ایسی اشیاء بطور عطیہ بھی دیتے ہیں ان کے اس جذبہ خیر کو سلام کہ ان کا یہ عمل بر بنائے نیک نیتی ہے، لیکن ان کا کیا جو اس جذبہ خیر کا استحصال کرتے ہیں۔ سادہ لوح لوگ دین کے لیے مالی قربانی خوشی خوشی دیتے ہیں، لیکن ان کی اس اعانت کا صحیح دیرپا اور زیادہ بہتر مصرف کیا ہونا چاہیے یہ کون طئے کرے گا۔ یہ کام ملت کے باشعور طبقے کو کرنا چاہیے، اسے ملت کے وسیع مفاد کے لیے اس کثیر رقم کو استعمال کرنا چاہیے، لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ملت کا یہ طبقہ جسے باشعور کہا جارہا ہے، گویا کہ بھنگ پی کر پڑا ہوا ہے۔ اسے نہ کوئی خبر ہے نہ پرواہ کہ ملت کی خطیر رقم کیسے بے مصرف ضائع ہورہی ہے اور لوگ جیسے چاہے اس کا استعمال کررہے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ کافی سیانے ہوتے ہیں اس لیے لوگوں کے دل کو ہاتھ میں لینے کا ہنر بہتر طریقے سے جانتے ہیں، یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ایک مذہبی طبقہ لوگوں سے پیسے نکالنے میں کیسے ماہر ہوتا ہے اور کیسے لوگوں کی نفسیات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے گو کہ یہ طریقہ غم کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس طریقہ کا جس طرح استعمال ہوتا ہے، اسے پڑھ کر آدمی ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا وہ یہ کہ جب کسی کے کسی قریبی عزیز کا انتقال ہوجاتا ہے تب آخری رسومات میں یہ طبقہ پیش پیش رہتا ہے جس کے سبب مرنے والے کے قریبی لواحقین کے دل میں ان کے تئیں جذبہ احترام کے ساتھ ساتھ جذبہ ممنونیت بھی پیدا ہوجاتا ہے، ایسے ماحول میں جب کہ اس کے دل پر غم کا غلبہ ہوتا ہے، تب یہ طبقہ اس کے جذبہ غم کو بڑھاتے ہوئے اسے احساس دلاتا ہے کہ اب وہ مرحوم کے لیے کچھ اور نہیں کر سکتا، سوائے اس کے کہ ان کے ایصال ثواب کے لیے کوئی صدقہ جاریہ نہ دے اور یہ صدقہ جاریہ موصوف کے مدرسے یا ادارے کے لیے متاثرہ کی مالی حالت کے مطابق طلب کیا جاتا ہے چوں کہ اس کا غم تازہ ہوتا ہے، اس لیے وہ اس ادارے کو کسی کمرے ہال کی شکل میں یا اپنی مالی حیثیت کے مطابق کسی اور کارآمد چیز کی شکل میں دے دیتا ہے، جو اس طبقے کی پرفیکٹ ٹایمنگ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں یہ بھی اچھا ہے کیوں کہ اگر زیادہ وقفہ گزر گیا تو وہ یہ مدد تودور چائے پلانے بھی تیار نہ ہو۔ غرض کہ ایسے تگڑم بھی استعمال ہوتے ہیں، اب اسے کوئی کچھ بھی کہے یا سمجھے، مختصر یہ کہ اس دور میں بھی یہ ملت‘ دین و ملت کے نام پر کافی کچھ دینے تیار ہے بلکہ دے رہی ہے ہونا یہ چاہیے کہ اس کا صحیح استعمال ہو۔