ایشیاء

مزدور کے بیٹے سے باغی رہنما اور سری لنکا کی صدارت تک! ڈسانائیکے کا حیرت انگیز سفر

سری لنکا میں پہلی بار بائیں بازو کے مارکسٹ معاشی نظریے کے حامی رہنما انورا دسانائیکے صدر منتخب ہوگئے ہیں جو ایک مزدور کے بیٹے ہیں۔

کولمبو: سری لنکا میں پہلی بار بائیں بازو کے مارکسٹ معاشی نظریے کے حامی رہنما انورا دسانائیکے صدر منتخب ہوگئے ہیں جو ایک مزدور کے بیٹے ہیں۔

متعلقہ خبریں
سری لنکا، پاکستان کو تین وکٹوں سے شکست دے کر خاتون ایشیا کپ کے فائنل میں
چین کے تعمیر کردہ ہوائی اڈے کا انتظام ہندوستانی اور روسی کمپنیاں حاصل کریں گی
سری لنکا کی ورلڈکپ میں پہلی کامیابی
پاکستان نے پہلا ٹسٹ 4 وکٹ سے جیت لیا
خاتون بولر نے 21ویں صدی کا عیجب ریکارڈ بنا دیا

سری لنکن الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز جب 55 سالہ دسانائیکے کی صدارتی الیکشن میں کامیابی کا اعلان کیا تو یہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ بائیں بازو کا کوئی سیاسی رہنما سری لنکا کے ایوان صدر تک پہنچا ہے۔ اپوزیشن لیڈر ساجیت پریماداسا کو شکست دینے والے دسانائیکا کا سیاسی سفر ایک غریب مزدور کے گھر سے شروع ہوا اور باغی سیاسی رہنما سے ہوتا ہوا اب منصب صدارت تک آن پہنچا ہے۔

سری لنکن میڈیا کے مطابق 42.31 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہونے والے جنتا ویمکھتی پیرامونا (جے وی پی) پارٹی کے رہنما انورا دسانائیکے 1969 میں دارالحکومت کولمبو سے دور ایک مزدور خاندان میں پیدا ہوئے۔

سری لنکا کے نومنتخب مارکسسٹ صدر انورا کمارا دسانائیکا کا تعلق ایک ایسی جماعت سے ہے جس نے دو ناکام بغاوتوں کی قیادت کی اور جو چی گویرا کو اپنے ہیروز میں شمار کرتے ہیں۔

انورا کمارا دسانائیکا کے دارالحکومت کولمبو میں واقع دفتر کی دیواروں پر کمیونسٹ رہنما کارل مارکس، ولادیمیر لینن، فریڈرک اینگلز اور فیڈل کاسٹرو کی تصاویر آویزاں ہیں۔

انہوں نے 80 کی دہائی میں طلبہ کی سیاست میں قدم رکھا۔ 1987 سے 1989 کے دوران حکومت کے خلاف تحریک چلاتے ہوئے، دسانائیکے نے جے وی پی میں شمولیت اختیار کی۔

جے وی پی نے پہلی مرتبہ سنہ 1971 میں دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم سریما بندرانائیکی کی سوشلسٹ حکومت کے خلاف بغاوت شروع کی تھی۔ پارٹی کے جنگجو ’چی گویرا‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ لڑائی اگرچہ مختصر تھی لیکن اس میں 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

جے وی پی نے جب 1980 کی دہائی میں ناکام بغاوت کی کوشش کی تو اس وقت انورا کمارا طلبا تنظیم کے رہنما تھے تاہم انہوں نے 2004 میں پارٹی کی قیادت سنبھالی اور اعلان کیا کہ ان کی جماعت آئندہ کبھی بھی ہتھیار نہیں اٹھائے گی۔

نو منتخب صدر دسانائیکے کی سیاست نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ مرکزی دھارے میں آنے اور عوام میں شہرت میں اضافے کے بعد ان کی چند پالیسیوں میں نرمی آئی ہے۔ انہوں نے سری لنکا کے لوگوں سے کھلے عام معافی مانگی جب کہ اب وہ اوپن معیشت پر یقین رکھتے اور نجکاری کے بھی مکمل خلاف نہیں ہیں۔

سال 1995 میں انہیں سوشلسٹ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا نیشنل آرگنائزر بنایا گیا جس کے بعد انہیں جے وی پی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی میں بھی جگہ ملی۔

دسانائیکے 2000 میں پہلی بار رکن پارلیمنٹ بننے سے پہلے، وہ تین سال تک پارٹی کے پولیٹیکل بیورو کے رکن رہے۔ 2004 میں انہیں سری لنکا فریڈم پارٹی(ایس ایل ایف پی)کے ساتھ مخلوط حکومت میں زراعت اور آبپاشی کا وزیر بنایا گیا تاہم ایک سال بعد ہی انہوں نے اس منصب سے استعفیٰ دے دیا۔

دسانائیکے 2019 میں پہلی بار صدارتی انتخاب کی دوڑ میں آئے تھے، لیکن انہیں صرف تین فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس کے بعد، 2022 میں سری لنکا میں معاشی بحران کے بعد، جے وی پی پارٹی نے خود کو ملک میں ایک اینٹی کرپشن لیڈر کے طور پر پیش کیا، جس سے اسے کافی فوائد حاصل ہوئے۔

انورا کمارا کا ’کرپٹ سیاسی کلچر‘ کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا جو مالی مشکلات سے دوچار لنکن عوام کے دل کی آواز بن گیا ہے۔

نو منتخب صدر نے اپنے پارٹی منشور میں لکھا تھا ’پہلی مرتبہ سری لنکا کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں گوورننس چند کرپٹ ایلیٹ فیملیز کے کنٹرول سے لوگوں کی حکومت کو منتقل ہوگی۔‘

انورا کمارا اور ان کی جماعت نے 1987 کے بعد سے انڈیا کے ساتھ حالات بہتر کر لیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ چین کے بھی قریب سمجھے جاتے ہیں۔

انورا کمارا آج کولمبو میں صدارتی سیکریٹریٹ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔