سیاستمضامین

دکن کی عسکری تاریخ کا روشن باب : نواب جان نثار یار جنگ ؒعوض بن سعید ابی اللیل السلیمی (کمانڈنگ جمعیت نظام محبوب)

شیخ ابو بکر بن حسین آل عبدالصمد باوزیر (ممتاز باغ بارکس)

آپ کا پورا نام عوض بن سعید بن سالم بن مبارک بن احمد بن علی ابی اللیل السلیمی آپ یمن کے شہر حضرموت وادیٔ دوعن کے باشندے تھے۔ غفران مکان میر محبوب علی خان بہادر آصف جاہ ششم کے زمانے میں ہندوستان تشریف لائے تھے آپ کا تعلق بنو سلیم قبیلے سے تھا جو حضرموت کا مشہور و معروف قبیلہ ہے اور یہ قبیلہ سعودیہ نجد و حجاز‘ مکہ و مدینہ ومغرب میں پھیلا ہوا ہے۔ جن میں سے کچھ افراد نے یمن کا رخ کیا اور حضرموت کو اپنا وطن بنالیا۔ بنو سلیم نبی کریمؐ کے چچائوں میں سے ہیں اور انکا شجرۂ نسب کچھ یوں ہے۔
سلیم بن منصور بن عکرمہ بن قصفہ بن قیص بن عیلان بن مضر بن نذار ابن معد بن عدنان سے ہوتے ہوئے اسمٰعیل بن ابراہیم علیہا السلام سے جاملتا ہے۔ بنو سلیم کی کئی شاخیں ہیں اور قبیلہ ابی اللیل ان ہی میں سے ایک ہے اور اس قبیلہ کے لوگ بڑے بہادر اور چالاک جنگجو تھے اور انہوں نے کئی اتحادی جنگیں لڑیں یہ تاریخ میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ جب بھی اپنے گھوڑوں پر جنگ کیلئے سوار ہوتے تو گھوڑوں کی دوڑ سے اُڑنے والی غبار سے اندھیرا چھا جاتا تھا۔ اسی لئے انکو ابی اللیل کا لقب دیا گیا۔(ابی کامطلب باپ اور اللیل کا مطلب رات)۔
1875؁ء میں سالار جنگ اوّل نے کوشش کی کہ ونپرتی کی رانی کے پاس سے چار سو عربوں کو بلایا جائے اور یہ منظور ہوا کہ چار سو عرب اور چار سو روہیلی پٹھان کو ونپرتی سے میسرم منکھال بلایا جائے اور ان سب کی رجمنٹ میسرم میں بنائی گئی اس رجمنٹ کو اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان آصف جاہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اب میسرم سے کنگ کوٹھی محل کا بڑا لمبا سفر تھا مگر سپاہیوں نے جیسا تیسا کرکہ پانچ سال گزارے اور 1880؁ء میں میر محبوب علی خاں نظام نے اس رجمنٹ کو میسرم سے چندرائن گٹہ منتقل کردیا اور تھوڑے فاصلے پر ایک میدانی علاقہ تھا وہاں پر ان سب لو سکونت اختیار کرنے کی تجویز دی اور بعد میں غفران مکان نے افسران کے لئے علحدہ کمرے اور شفاخانہ اور اسلحہ گاہ بنوائے۔ اب یہ رجمنٹ 1885؁ء میں باقاعدہ تیار ہوگئی۔
ایک وقت کا ذکر ہے کہ غفران مکان نظام میر محبوب علی خان بہادر اپنے گھوڑے پر شکار کیلئے سوار ہوئے اور اکیلے ہی شکار کیلئے روانہ ہوگئے ‘اسی دوران ایک زخمی شیر انکے گھوڑے کے سامنے آپہنچا ‘بڑی حیرانی کے ساتھ انہوں نے شیر کو دیکھا ‘شیر حملہ کی غرض سے انکی طرف آگے بڑھا ‘اتنے میں ایک شخص اللہ کی طرف سے نمایاں ہوا جو اس وقت فرشتہ ثابت ہوا اور اس شخص نے شیر سے مقابلہ کیا تھوڑی ہی دیر میں اس نے شیر کو ڈھیر کردیا ۔اس وقت غفران مکان کچھ نہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ‘مگر 7 نومبر 1893؁ء کو اپنے سالگرہ کے موقع پر اپنے ہم نثار کو سب کے سامنے بلوایا اور جانثار یار جنگ کے خطاب سے نوازا اور ساتھ ہی ساتھ منصب دہ ہزاری ایک ہزار سوار و علم سے نوازااور وہ جانثار یار جنگ کوئی اور نہیںبلکہ حضرت عوض بن سعید ابی اللیل السلیمی تھے اور اس تاریخ سے خاتمہ آصف جاہی تک کسی کو اب تک خطاب حکومت کی جانب سے نہیں ملا۔ میر محبوب علی خان بہادر جب بھی شکار کی غرض سے نکلتے تو جانثار یار جنگ کو اپنے ہمراہ رکھتے اور جب بھی کچھ خاص کام کیلئے نکلتے تو عوض بن سعید ابی اللیل کو اپنا ہمسفر رکھتے۔ اسی اثناء میں سالار جنگ اول نے آصف جاہ سے مطالبہ کیا کہ ایک ہزار عربوں کی علحدہ بٹالین بنائی جائے ‘آصف جاہ نے انکی بات کو قبول کیا اور ایک ہزار عربوں کی بٹالین بنائی گئی اور اس وقت عوض بن سعید ابی اللیل اُفرفکن کلوری گارڈ میں لیفٹیننٹ کمانڈر تھے۔ وہاں سے آپ کا تبادلہ عربوں کی بٹالین کے سربراہ کے طور پر ہوا یہ رجمنٹ کا ہیڈ کوارٹر میسرم بنایا گیا جو میسرم لائن کے نام سے مشہور ہوا بعد میں اسکا نام تبدیل کرکے جمیعت نظام محبوب رکھا گیا۔ یہ علاقے میں فوجی رہنے کے باعث بیارکس کے نام سے جانا گیا اور اسکو عام بولی میں بارکس کہا گیا اور اس تاریخ سے اس علاقے کو بارکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بارکس منتقل ہونے کے بعد سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اور رجمنٹ میں سپاہیوں کی تعداد بارہ سو ہوگئی۔
عوض بن سعید ابی اللیل کا انتقال 17 ڈسمبر 1904؁ء کو بارکس میں ہوا اور تدفین مقبرہ قدیم قبرستان بارکس میں عمل میں آئی جو ابھی مسجد عثمان بن عفانؓ کے روبرو ہے۔
آپ کے فرزندان سعید بن عوض جو آپ کے بعد فوج کے سربراہ ہوئے اور منصور بن عوض‘ منصر بن عوض اور ناصر بن عوض جو کے بعد میں فوج کے سربراہ بھی رہے اور یہ اپنے فلاحی کاموں کے لئے بڑے مشہور تھے اور اپنے ذاتی اخراجات سے ایک عمارت کی تعمیر کی اور اس کا نام دارالضاء رکھا اور اسکا مطلب روشنی کا گھر ہے۔ جس میں قوم کے بچوںکے لئے علحدہ علحدہ فن سکھائے جاتے تھے اس وقت اس عمارت میں اسٹیٹ بینک آوف انڈیا بارکس ہے اور انہوں نے عوام الناس کے کیلئے انکی خوشی و غم کے کلسوں کیلئے برتن دیا کرتے تھے اور یہ برتن رجمنٹل پولیس کی نگرانی میں تھے بعد میں یہ مجلس تنظیم سبیل الخیر کے حوالہ کردئے گئے۔
خالد بن عوض آپ کے پانچویں فرزند تھے جو وقت کے بڑے ہی کامل ولی تھے ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ سے ہوئی اور یہ پنجاب یونیورسٹی سے اف اے کی ڈگری حاصل کی آپ حیدرآباد دکن میں خالد میاں کے نام سے مقبول تھے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰