سیاستمضامین

اس گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی۔پی ایچ ڈی

جب تقدیر روٹھ جاتی ہے تو بنے بنائے منصوبوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ یہ سچائی ہمارے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی پر پوری طرح صادق آتی دکھائی دے رہی ہے۔ پانچ ریاستوں یعنی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم میں مودی جی بڑے ڈھیٹ انداز میں کرپشن کو موضوع بنارہے ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں ای ڈی کے ذریعہ مبینہ طورپر چھتیس گڑھ کے چیف منسٹر بگھیل ، راجستھان کے چیف منسٹر اشوک گہلوٹ اور دوسرے اپوزیشن لیڈروں کے خلاف جو گھیرا بندی کی ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ بدعنوانیوں کے دلدل میں خود پھنس رہے ہیں۔ اگر ان کے خاص رفیق تومر کے بیٹے دیویندر تومر کے خلاف بدعنوانیوں سے متعلق وائرل ویڈیوز کو اگر سچ مانا جائے تو اس سے بڑا کوئی اور اسکینڈل نہیں ہوسکتا۔جس سے مودی کو خائف ہونا ہی پڑے گا۔ نریندر مودی یہ سمجھ رہے تھے کہ کانگریسیوں کے خلاف بدعنوانی کی مہم چلا کر کم از کم راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومت قائم کرلیں گے لیکن اسی دوران تومر کے بیٹے کے ایک اسکینڈل میں پھنسنے کی خبر آنے لگی جس میں 10ہزار کروڑ کی معاملت طئے ہوئی تھی۔ اس ویڈیو کے وائرل ہوجانے کے بعد مودی جی کا سارا کھیل بگڑ گیا اور ملک کے چپے چپے میں تومر کے بیٹے کی بدعنوانی عام ہونے لگیں ۔ آپ جانتے ہوں گے کہ تومر وزیراعظم نریندر مودی کے خاص کابینی ساتھی ہیں جنہیں انہوں نے اسمبلی کے چناؤ میں اتارا ہے۔
اگر بی جے پی ریاستی چناؤ جیت جاتی ہے تو وہ چیف منسٹر بھی بن سکتے ہیں۔ لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ مرکزی کابینہ کے اس وزیر کے بیٹے کے مبینہ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے باوجود تحقیقات کا آغاز کیوں نہیں کیا گیا؟ بی جے پی سرکار کرپشن کے معاملے میں دوہرا معیار کیوں اپناتی ہے؟ اپنی پارٹی کے لئے ایک اُصول اور اپوزیشن کے لئے دوسرا ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ بدعنوانیو ںسے متعلق تومر کے بیٹے کے ویڈیوز ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین ہیں جوسوشل میڈیا پر گشت کررہے ہیں۔ ان ویڈیوز کو کروڑوں لوگوں نے دیکھا ہے۔ عوام ان ویڈیوز کو صحیح سمجھنے پر مجبور ہورہے ہیں کیوں کہ ابھی تک اس کے بارے میں کوئی سرکاری تصدیق یاتردید نہیں ہوئی ہے۔ اس کرپشن کو لوگ حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور ہر سمت سے تومر تومر کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔
راہول گاندھی اس اسکینڈل کو بڑے موثر ڈھنگ سے عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ ان سی ڈیز کا تین انتہائی اہم ریاستوں یعنی راجستھان، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں خوب چرچا ہورہا ہے۔ لوگوں میں اس اسکینڈل کے متعلق زبردست تجسس دکھائی دے رہا ہے بلکہ کئی جگہ پر بی جے پی کو سی ڈی پارٹی بھی کہا جارہا ہے۔ سیاسی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ان تین سی ڈیز کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی گرتی ہی ہوئی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا ہے اور اب وہ کرپشن کو موضوع بنانے میں ناکام ہوجائے گی۔ کئی ماہرین بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھارتیہ جھوٹ پارٹی کہنے پر بھی مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ اس پارٹی کے قائدین اپنی بات کو منوانے کے لئے جھوٹی تاریخوں کا حوالہ دیتے ہیں اور سچائی سے گریز کرتے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا یہ احساس ہے کہ دیویندر تومر کا یہ اسکینڈل بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2024 کے عام انتخابات میں بھی بہت بھاری جھٹکا دے گا اور پارٹی کو انتہائی شرمناک شکست سے دوچار کرے گا۔ ادھر اترپردیش میں بھی بی جے پی قائدین کے درمیان گھمسان جاری ہے۔ امیت شاہ یوگی کو کمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تو وہیں چیف منسٹر یوگی اپنی طاقت کو منوانے میں جٹ گئے ہیں ۔ کسی بھی پارٹی کو اقتدار میں آنے کے لئے اترپردیش میں بہترین مظاہرہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ 80 لوک سبھا کی نشستیں رکھنے والی یہ ریاست مودی کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ سیاسی ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اب کی بار مودی سرکار ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ جو عوام کو دکھائی دے رہی ہے وہ ہے بی جے پی کے قائدین کے درمیان زبردست آپسی ٹکراؤ ہے۔ دوسری وجہ آئی ۔این۔ ڈی۔ آئی۔ اے ۔ کا غیر معمولی مستحکم ہونا ہے۔
یہاں امیت شاہ مبینہ طورپر چاہتے ہیں کہ ڈپٹی چیف منسٹر موریاکو یوگی کی جگہ چیف منسٹر بنایا جائے تاکہ وہ کمزور ہوجائیں اور وزارت عظمی کا دعوی نہ کرسکیں۔ امیت شاہ کا یہ احساس ہے کہ صرف وہی نریندر مودی کے جانشین بن سکتے ہیں۔ یوگی اور موریا کے درمیان تعلقات اس قدر بگڑے ہوئے ہیں کہ موریا کابینہ کی میٹنگوں میں شرکت سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔ ریاست میں ان کی اہمیت کو امیت شاہ نے بہت بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے ہر اہم شخصیت ان کے دربار میں حاضری دے رہی ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے اترپردیش سے 73 نشستوں پرکامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2019میں اس کی تعداد گھٹ کر 64 نشستوں تک محدود ہوگئی تھی اور اس بار اپوزیشن کی مضبوطی اور بی جے پی کی آپسی لڑائی کے سبب اسے بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جب کبھی بی جے پی میں اختلافات ہوتے تھے تو آر ایس ایس کی مداخلت کے سبب ختم ہوجاتے تھے لیکن اب آر ایس ایس کے پاس وہ دم و خم دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ سنگھ کے ترجمان Organiser کے بموجب اب کی بار چناؤ جیتنے کے لئے نہ تو کمیونل ایجنڈا کام آئے گا اور نہ ہی مودی کا چہرہ ۔ اب یہ بات لوگوں کے سمجھ میں آنے لگی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ادھر مہاراشٹرا سے ملنے والی خبروں کے مطابق مہا وکاس اگھاڑی زبردست چناوی کامیابیاں حاصل کرے گی یعنی 48 نشستوں پر مشتمل مہاراشٹرا میں بھی بی جے پی کو بری ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ یہاں شیو سینا (ادھو ) نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور کانگریس پارٹی کا اتحاد بے حد طاقتور ہے۔ ضمنی چناؤ میں وکاس اگھاڑی کی شاندار کامیابیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سیکولر طاقتوں کو مضبوط موقف حاصل ہوگا۔ بحیثیت مجموعی بی جے پی کی طاقت کا تجزیہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پارٹی زوال کی طرف راغب ہوچکی ہے اور اسے اس کے ہی قائدین سے زبردست نقصان ہونے والا ہے بقول تاباں ؔکے
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w