امریکہ و کینیڈا

بائیڈن انتظامیہ اردن میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا جواب دینے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اردن میں ہونے والے حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کا جواب دینے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اردن میں ہونے والے حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کا جواب دینے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔

متعلقہ خبریں
پرائمری انتخابات، بائیڈن کو اسرائیل۔غزہ جنگ پر مخالفت کا سامنا
22جنوری کو رام مندر کا افتتاح،واشنگٹن میں ایک ماہ طویل تقاریب کا آغاز
امریکہ کا ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں اضافے کا فیصلہ
اسرائیل۔غزہ تنازعہ پر بائیڈن انتظامیہ میں اختلافات
جوبائیڈن 2024 کی یوم جمہوریہ پریڈ میں مدعو

العربیہ کے مطابق مسٹر کربی نے کہا کہ "بائیڈن نے پہلے کہا تھا کہ وہ اس حملے کا مناسب وقت پر جواب دیں گے۔

خیال رہے کہ اتوار کے روز اردن اور شام کی سرحد پر امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے ڈرون حملے میں کم سے کم تین امریکی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد امریکی صدر پر امریکا کے اندر سے جوابی کارروائی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے پیر کو سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں مزید کہا کہ امریکی انتظامیہ کا خیال ہے کہ ایک ہی ڈرون تھا جس نے اردن اور شام کی سرحد پر واقع ٹاور 22 بیس کو نشانہ بنایا۔

اس کے علاوہ اس حملے کے پیچھے ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ بریگیڈ کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔

اردن کی سرحد پر ہونے والے اس حملے کے بعد امریکہ نے سخت غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ صدر بائیڈن کیا جواب دیں گے؟ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور امریکی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس حملے کا جواب ایران پر براہ راست حملے کی صورت میں دے۔

دوسری جانب ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے سے صاف انکار کیا ہے۔ ایرانی وزارت کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا کہ "یہ الزامات سیاسی ہیں اور ان کا مقصد خطے میں حقائق کو پلٹنا ہے”۔

قابل ذکر ہے کہ اس تازہ حملے نے بلاشبہ خطے میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے اور اس خدشے کو ہوا دی ہے کہ سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی میں شروع ہونے والی جنگ کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے جس میں براہ راست ایران بھی شامل ہو سکتا ہے۔

a3w
a3w