حیدرآبادسوشیل میڈیا
ٹرینڈنگ

ہاسٹل واپس جانے سے بچنے لڑکی نے 33 گھنٹوں تک بسوں میں سفر کیا

تلنگانہ میں آرٹی سی بسوں میں خواتین کے لئے مفت سفر کی سہولت ایک 12 سالہ لڑکی کے لئے سہل ثابت ہوا۔ دراصل بسوں میں مسلسل سفر کرنا اس لڑکی کا مقصد‘ دادا کے گھر سے اپنے ہاسٹل جانے سے گریز کرنا تھا۔

حیدرآباد: تلنگانہ میں آرٹی سی بسوں میں خواتین کے لئے مفت سفر کی سہولت ایک 12 سالہ لڑکی کے لئے سہل ثابت ہوا۔ دراصل بسوں میں مسلسل سفر کرنا اس لڑکی کا مقصد‘ دادا کے گھر سے اپنے ہاسٹل جانے سے گریز کرنا تھا۔

متعلقہ خبریں
ویڈیو: نظام کالج کی یو جی کورسس کی طالبات کا انوکھا احتجاج
حیدرآباد میں چین چھیننے کی وارداتوں میں یو پی کے 2مجرم ملوث
آلودہ پانی کے استعمال سے ہاسٹل میں کئی طالبات بیمار

اس لڑکی کا بسوں میں مفت سفر جمعہ کے روز صبح کے اوائل میں اس وقت اختتام کوپہونچا جبکہ پولیس کی ٹیموں نے اس لڑکی کو حیدرآبادمیں جوبلی اسٹیشن میں پایا۔ پولیس کی ٹیمس‘ پریشان تھیں اور اسے تلاش کررہی تھیں اور والدین اپنی لڑکی کے لئے بے چین تھے مگر لڑکی ملنے کے بعد اس کا 33 گھنٹوں تک بسوں میں مسلسل سفر ختم ہوگیا۔

اس لڑکی نے جس کا نام مخفی رکھا گیا ہے‘مسلسل33 گھنٹوں تک ایک بس سے دوسری بس میں سفر کیا مگر کسی نے بھی اس لڑکی پر دھیان نہیں دیا کیونکہ ریاستی حکومت نے خواتین کوبسوں میں مفت سفر کی سہولت فراہم کی ہے۔ ودیا رنیا پوری کی رہنے والی لڑکی آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے۔وہ ایک خانگی اسکول میں زیر تعلیم ہے مگروہ اس ہاسٹل میں رہ رہی تھی۔

کرسمس کی تعطیلات میں وہ پداپلی میں واقع اپنے دادا کے گھرگئی ہوئی تھی۔اپنے والد کی ہدایت کے مطابق اسے چہارشنبہ کے روزاپنے ہاسٹل پہونچناتھا دادانے اپنے ساتھ پوتری کوبس اسٹیشن لے گئے اور اسے 11بجے دن بس میں سوارکرایا۔انہوں نے اپنے بیٹے کے نرسمین کوبس کی تفصیلات جس میں پوتری کو سوار کرایا ہے‘روانہ کردیں۔

نرسمہن سابق فوجی ہیں۔ ماناکنڈورمنڈل کے اوٹورکے رہنے والے نرسمہن‘کریم نگر میں رہائش پزیر ہیں۔ لڑکی کوبظاہر ہاسٹل دوبارہ جانے میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ منچریال چوراہا پر اترنے کے بجائے کریم نگر کے مضافاتی علاقہ بمکل کراس روڈ پر بس سے اترگئی مگر والد منچریال چوراہا پر اپنی بیٹی کا انتظار کررہے تھے۔

بمکل کراس روڈ پر اترنے کے بعد یہ لڑکی آٹو کے ذریعہ کریم نگر بس اسٹانڈ روانہ ہوئی۔ دریں اثناء نرسمہن جومنچریال چوک پر اپنی بیٹی کا انتظار کررہے تھے‘بس کنڈاکٹر سے اپنی بیٹی کے بارے میں دریافت کیاجوبس میں موجود نہیں تھی۔ کنڈکٹرنے انہیں بتایا کہ لڑکی‘ بمکل کراس روڈ پر اترگئی۔

نرسمہن فوری بمکل کراس روڈ پہونچے مگروہاں ان کی بیٹی نہیں تھی۔ بعدازاں وہ پولیس سے رجوع ہوئے۔پولیس کی ٹیموں نے ان سی سی ٹی وی کیمروں کی چھان بین شروع کردی جو بس اسٹانڈ اور دیگر مقامات پر نصب تھے۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پر لڑکی کی تصاویر گشت کرنے لگیں۔

سوشل میڈیا پر لڑکی کی تصاویر دیکھنے کے بعد گنگادھر اگاؤں کے ایک ابھیلاش نامی شخص نے پولیس کومطلع کیا کہ یہ لڑکی‘میر ساتھ حیدر آبادسے گنگادھر تک بس میں تھی۔اس نے بتایا کہ جب میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں جارہی ہے تولڑکی نے جواب دیا کہ وہ جگتیال جارہی ہے۔

ابھیلاش کی اطلاع پر پولیس سمجھ گئی کہ یہ لڑکی بسوں کے ذریعہ ایک مقام سے دوسرے مقام سفر کررہی ہے۔ پولیس کی ٹیموں کوجگتیال‘کورٹلہ اورجے بی ایس (جوبلی بس اسٹیشن) سکندرآباد روانہ کردیاگیا۔

حیدرآباد کو روانہ پولیس کی ایک ٹیم نے جمعہ کے روز ایک بجے شب لڑکی کونظام آباد کی بس سے اترتا ہوا پایا۔ٹیم نے لڑکی کے افراد خاندان کوالرٹ کردیا۔ہیلت چک اپ کے بعد اس لڑکی کواس کے والدین کے حوالہ کردیاگیا۔