دہلی

مغل مسجد میں نماز پر پابندی کا مسئلہ

درخواست گزار کے وکیل ایم سفیان صدیقی نے کہا کہ گزشتہ سال تک مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی رہی۔ اے ایس آئی نے کسی نوٹس کے بغیر اس پر روک لگادی۔

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے مہرولی علاقہ کی مغل مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کے خلاف داخل درخواست کی تاریخ سماعت گھٹاکر یکم دسمبر کردی۔ دہلی وقف بورڈ کی مقررہ انتظامی کمیٹی مغل مسجد گزشتہ سال ہائی کورٹ سے رجوع ہوئی تھی۔

متعلقہ خبریں
یٰسین ملک سزائے موت کیس، سماعت سے ہائیکورٹ جج نے علیحدگی اختیار کرلی
سپریم کورٹ کا تلنگانہ ہائیکورٹ کے فیصلہ کو چالینج کردہ عرضی پر سماعت سے اتفاق
پرووائس چانسلر تقرر کیس، جامعہ ملیہ اسلامیہ کودہلی ہائیکورٹ کی نوٹس
مودی کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے پر کارروائی رپورٹ طلب
الیکٹورل بانڈ اسکیم سے متعلق فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست

 اس نے الزام عائد کیا تھا کہ محکمہ آثارِ قدیمہ(اے ایس آئی) نے 13 مئی 2022 کو نماز کی ادائیگی پوری طرح روک دی۔ اس کا یہ اقدام پوری طرح غیرقانونی اور من مانی ہے۔ جسٹس پرتیک جالان نے جلد سماعت کی درخواست قبول کرتے ہوئے حالیہ احکام میں کہا کہ یکم دسمبر 2023 کی لسٹنگ کی جائے۔

 30 جنوری 2024 کی پہلے دی گئی تاریخ منسوخ کردی گئی۔ درخواست گزار کے وکیل ایم سفیان صدیقی نے کہا کہ گزشتہ سال تک مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی رہی۔ اے ایس آئی نے کسی نوٹس کے بغیر اس پر روک لگادی۔

حال میں عدالت نے اے ایس آئی سے پوچھا تھا کہ اس کے زیرکنٹرول محفوظ تاریخی عمارتوں کے اندر واقع مذہبی مقامات میں لوگوں کو عبادت کی اجازت دینے کی پالیسی کیا ہے۔ درخواست کے جواب میں محکمہ آثارِ قدیمہ نے کہا تھا کہ یہ مسجد قطب مینار کی باؤنڈری میں ہے اور اس طرح یہ علاقہ پروٹیکٹیڈ ہے۔

یہاں عبادت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اے ایس آئی نے خبردار کیا کہ مغل مسجد میں نماز کی اجازت دینے سے نہ صرف ایک مثال قائم ہوگی بلکہ اس کا اثر دوسری تاریخی عمارتوں پر بھی پڑے گا۔ اس نے کہا کہ قطب مینار قومی اہمیت کی تاریخی عمارت اور یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے۔ یہ عبادت گاہ نہیں ہے۔ یہ مسجد‘ قطب مینار کامپلکس کی باؤنڈری میں ہے۔

a3w
a3w