تلنگانہ

کانگریس حکومت میں پارٹی کے اقلیتی قائدین بے یار و مدد گار!

تلنگانہ میں کانگریس ورکرس بشمول اقلیتی قائدین اور کارکنوں کی گزشتہ دس سال کے دوران سخت جدوجہد کے بعد صدر ٹی پی سی سی و چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کی قیادت میں کانگریس حکومت اقتدار میں آئی۔

حیدرآباد: تلنگانہ میں کانگریس ورکرس بشمول اقلیتی قائدین اور کارکنوں کی گزشتہ دس سال کے دوران سخت جدوجہد کے بعد صدر ٹی پی سی سی و چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کی قیادت میں کانگریس حکومت اقتدار میں آئی۔

متعلقہ خبریں
کھرگے پر نازیبا تبصرہ، کارروائی کی جائے گی:کانگریس
دہلی پولیس کی کارروائی کے خلاف کانگریس ہائیکورٹ سے رجوع
دونوں جماعتوں نے حیدرآباد کو لیز پر مجلس کے حوالے کردیا۔ وزیر اعظم کا الزام (ویڈیو)
بی جے پی اور کانگریس دونوں ریزرویشن مخالف : مایاوتی
کانگریس نے توہین کیلئے ہندو دہشت گردی کا لفظ دیا: یوگی

حکومت کی تشکیل کو ایک ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ لیکن کانگریس کے اقلیتی قائدین وکارکن اپنے آپ کو بے یار ومدد گار محسوس کررہے ہیں۔ کیونکہ تلنگانہ کانگریس میں نہ صرف اقلیتی قیادت کا فقدان ہے بلکہ ریاستی کابینہ میں کوئی مسلم نمائندگی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مسلم ایم ایل اے یا پھر ایم ایل سی ہے۔

کانگریس مائنا ریٹی ڈپارٹمنٹ کا کوئی چیرمین ہے اور نہ ہی کسی کارپوریشن کا چیرمین مسلمان ہے یہاں تک جی ایچ ایم سی میں کانگریس کا کوئی اقلیتی کارپوریٹر بھی نہیں ہے۔

کانگریس کے اقلیتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ گرچیکہ کانگریس پارٹی نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں 5 مسلم امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیا تھا لیکن ان میں ایک نے بھی کامیابی حاصل نہیں کی جس کے نتیجہ میں ریاستی کابینہ میں مسلم نمائندگی صفر رہی۔

چیف منسٹر اے ریونت ریڈی چاہتے تو ایم ایل اے کوٹہ کے تحت کونسل انتخابات میں ایک مسلم قائد کو امیدوار نامزد کرتے ہوئے انہیں منتخب کرواسکتے تھے اور پھر ریاستی کابینہ میں مسلم نمائندگی کو یقینی بنا سکتے تھے، لیکن افسوس کہ ریاست کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم نمائندگی کے بغیر ریاستی کابینہ تشکیل دی گئی۔

کانگریس قائدین کا کہنا ہے کہ عنقریب ریاستی کابینہ میں مسلم چہرہ کی شمولیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گورنر کوٹہ کے تحت نامزدگی غیر سیاسی ہونی چاہئے۔ اور ان کی ریاستی کابینہ میں شمولیت کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں کوئی اہم ذمہ داری یا عہدے دیئے جائیں گے۔

جہاں تک کابینہ میں مسلم نمائندگی کا سوال ہے اس کیلئے عوامی مقبولیت اور کانگریس سے وابستہ تجربہ کار سیاستداں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے کانگریس پارٹی کو 2025 تک انتظار کرنا پڑے گا۔ آئندہ سال ہی کونسل کی مخلوعہ نشستوں کے انتخابات منعقد ہوں گے اور اس انتخابات میں مسلم نمائندہ کو منتخب کیا جاسکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ا ب جبکہ پارلیمانی انتخابات قریب آرہے ہیں کانگریس پارٹی کابینہ میں مسلم نمائندگی اور کانگریس کی مسلم قیادت کے بغیر کس طرح اقلیتوں سے ووٹ مانگنے جائے گی؟ چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کے سامنے یہ ایک بڑا سوال ہے۔ انہوں نے کابینہ میں مسلم نمائندگی پر توجہ نہیں دی۔

کانگریس کے بعض گوشوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے کانگریس کو جس طرح متحدہ طور پر ووٹ دینا چاہئے تھا، نہیں دیا۔ کیونکہ بعض جماعتیں اور علماء اکرام نے انتخابات میں بی آر ایس کی تائید کی تھی۔ جس کے نتیجہ میں نہ صرف کانگریس کو بھاری اکثریت نہیں ملی بلکہ کسی مسلم امیدوار کو کامیابی بھی نصیب نہیں ہوئی۔

جس کی وجہ سے ریاستی کابینہ میں مسلم نمائندگی صفر رہی ہے۔ کانگریس قائدین کا کہنا ہے کہ حیدرآباد، سکندرآباد اور ملکاجگری پارلیمانی حلقہ میں کانگریس کا ایک بھی امیدوار منتخب نہیں ہوا۔ اس کی وجہ اقلیتی ووٹرس کا بی آر ایس کو ووٹ دینا بتایا گیا ہے۔

کانگریس کے بعض اقلیتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارٹی میں اقلیتی قیادت کے فقدان سے وہ اپنے آپ کو یتیم ویسیر محسوس کررہے ہیں۔ کیونکہ ہمارا کوئی قائد نہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی پرسان حال ہے۔ جنہیں ہم اپنے مسائل سے واقف کروائیں۔ جب ہم گاندھی بھون آتے ہیں تو ہمیں دوسروں کے پیچھے گھومنا پڑتا ہے۔ پارٹی کے جو بھی مسلم کارگذار صدر یا نائب صدر ہیں وہ تو گاندھی بھون آتے ہی نہیں۔ وہ کبھی کبھار جلسوں میں شرکت کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

a3w
a3w