متھراشاہی مسجد عیدگاہ کی برقی منقطع کرنے کی خبر بے بنیاد
حال میں متعدد اخبارات اور خصوصی طور پر اردو میڈیا نے بھی اترپردیش کے شہر متھرا میں شاہی عیدگاہ مسجد کی برقی منقطع کرنے کی ایک خبر کوصفحہ اول کی زینت بنایا،لیکن شاہی عیدگاہ مسجد پر ایسی کوئی بڑی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
ممبئی: حال میں متعدد اخبارات اور خصوصی طور پر اردو میڈیا نے بھی اترپردیش کے شہر متھرا میں شاہی عیدگاہ مسجد کی برقی منقطع کرنے کی ایک خبر کوصفحہ اول کی زینت بنایا،لیکن شاہی عیدگاہ مسجد پر ایسی کوئی بڑی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔اور عیدگاہ کمیٹی کے سکریٹری ایڈوکیٹ تنویر احمد نے اس کی سختی سے تردید کی ہے جوکہ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں ممبئی تشریف لائے۔
واضح رہے کہ اخبارات میں میں شائع ہونے والی خبروں میں مطلع کیا گیا کہ اترپردیش محکمہ برقی نے شاہی عیدگاہ مسجد کا برقی کنکشن کاٹ دیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ انتظامیہ کمیٹی پر مقدمہ درج کر دیا ہے اور 3لاکھ کا جرمانہ عائد کیا ہے۔
خبر میں ایگزیکٹیو انجینئر کے حوالے سے بتایا گیا تھاکہ محکمہ بجلی اور پولیس کی مشترکہ ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے فوری طور پر عیدگاہ مسجد کا برقی کنکشنن منقطع کردیا گیا ہے۔ انجینئر کے مطابق شاہی عیدگاہ مسجد کے خلاف شری کرشن جنم مکتی نرمان ٹرسٹ کی جانب سے شکایت کی گئی تھی جس کی جانچ کے بعد مسجد کا برقی کنکشن غیر قانونی پایا گیاجس پر کارروائی کرتے ہوئے کنکشن کاٹ دیا گیا۔
عیدگاہ مسجد کی 13.37 اراضی ہے۔مذکورہ خبریں بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ہے،عید کمیٹی کے سکریٹری ایڈوکیٹ تنویر احمد نے سختی سے اس کی تردید کی ہے اور کہاکہ عیدگاہ اور مسجد کی برقی فراہمی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے اور کہاکہ دراصل عیدگاہ اور کرشن جنم بھومی کی حفاظت کے لیے سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آرپی ایف) تعینات کی گئی ہے اور خصوصی طور پر حفاظتی ٹاور بنانے کے ساتھ ساتھ فلیش لائٹس بھی نصب کی گئی ہیں، تاکہ شرپسندوں کے شر سے محفوظ رکھا جاسکے۔
انہوں نے مزید کہاکہ کچھ عرصہ سے شرپسندکی جارہی ہے اوربتایا جاتاہے کہ ذرائع ابلاغ کے تعصب رکھنے والے جانبدار نمائندوں کی مدد سے اس قسم کی خبریں شائع کروائی جاتی ہیں۔جس سے افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ملک بھر کے مسلمان کنفیوژ ہوجاتے ہیں۔
عیدگاہ کے بارے میں حال میں ہی عدالت کے ذریعہ منصف مقرر کرنے کی خبر بھی پھیلائی گئی جوغلط فہمی کا نتیجہ تھی اور عدالت نے اس سلسلہ میں سخت ہدایت جاری کی ہے۔