مذہب

وجودِ مصطفیٰؐ کے دو مرحلے (1) نورِ محمدی (2) بشریتِ محمدی

شانِ نورانیت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبین ’’بے شک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ) آگئے اور روشن کتاب یعنی (قرآن مجید)‘‘۔

یہ حقیقت ہے کہ نہ آپؐ کی نورانیت کا انکار کیا جاسکتا ہے نہ ہی بشریت کا انکار کیا جاسکتا ہے۔ شانِ نورانیت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبین ’’بے شک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ) آگئے اور روشن کتاب یعنی (قرآن مجید)‘‘۔ امام خازنؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: قد جاء کم من اللہ نور یعني محمد ﷺ انما سماہ اللہ نورا لا نہ یھتدی بہ کما یھتدی بالنور في الظلام۔ ’’بے شک تمہارے پاس اللہ کا نور یعنی حضرت محمد (مصطفی ﷺ) تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نور اس لئے فرمایا کہ آپ ﷺ سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے جیسے اندھیری رات میں نور سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے‘‘۔

متعلقہ خبریں
اسلام کی سربلندی کے لئے علماء کرام، مشائخ عِظام کی متحدہ جدوجہد ضروری: امیر جامعہ نظامیہ مفتی خلیل احمد صاحب
آپسی تنازعات کے حل کیلئے دارالقضاء سے رجوع ہونے کا مشورہ: مولانا جعفر پاشاہ
جامعہ نظامیہ کے ناکام طلبہ کیلئے پرچوں کی مکرر جانچ کا موقع
جامعہ نظامیہ میں جدید داخلے
جامعہ نظامیہ میں درس بخاری شریف

نور وہ ہے جو خود روشن ہو اور دوسروں کو روشن کردے۔ چاند وسورج کی روشنی صرف ظاہر کو روشن کرتی ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو رات کی تاریکی چھٹ جاتی ہے اور اس سے ساری دنیا روشن ہوجاتی ہے لیکن اس کی روشنی انسان کے باطن کو روشن نہیں کرسکتی۔ رب العٰلمین آپؐ کو ایسا روشن چراغ بنایا جو ظاہر کے علاوہ باطن کو بھی روشن کردیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یا ایھا النبي انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونِذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجامنیرا ’’اے نبیؐ یقیناً ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور (جنت کی) خوشخبری سنانے والا اور (جہنم سے) ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور نہایت روشن چراغ بنایا‘‘۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال کی عمر میں بعض صحابہؓ پر اسلام پیش کیا جیسے سیدنا ابوبکر، سید علی مرتضیٰ، سیدتنا خدیجہ الکبریٰ، سیدنا بلال، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم تو انہوں نے کوئی غوروفکر کئے بغیر بلا تامل اسلام قبول کرلیا نہ ہی انہوں نے کوئی معجزہ طلب کیا نہ ہی نبوت پر کوئی دلیل طلب کی، یہاں تک کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو اسلام قبول کرنے سے پہلے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے جس وقت آپؓ نے اسلام قبول کیا تو حضورؐ سے کوئی معجزہ ودلیل طلب نہیں کیا، صرف چہرے مصطفی کو دیکھا، ایمانی گفتگو ہوئی، نگاہ مصطفی سیدنا عمر فاروق پر پڑی تو قلب سے کفر کی تاریکی چھٹ گئی اور ایمان کی روشنی قلب میں آگئی اور کلمہ توحید پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ اس طرح ہزار ہا صحابہ کرام نے چہرہ مصطفی کو دیکھ کر اسلام قبول کیا۔ یہ نورِ محمدی کا اثر تھا جو تاریک دلوں کو روشن کرتا رہا۔

آپؐ نے اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے قوم میں معجزات نہیں پیش کئے بلکہ اپنی ذات کو پیش کیا، باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: لبثت فیکم عمرًا من قبلہ (سورہ یونس) ’’میں نے اعلان نبوت سے پہلے اپنی عمر کا ایک حصہ تمہارے ساتھ گزارا ہے‘‘۔ آپؐ کے اکثر معجزات صحابہ کرام کی حاجتوں کی تکمیل کیلئے ظاہر ہوئے جیسے خشک کنویں میں پانی کے چشمے ابل پڑے تاکہ صحابہؓ اپنی پیاس بجھا لیں اور غسل و وضو کرلیں۔ اسی طرح حضرت جابرؓ کے کھجوروں میں برکت آگئی تاکہ ان کے والد گرامی کا قرض ادا ہو جائے۔ میدانِ جنگ میں زخمی صحابہ کو صحت مل گئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قضا شدہ نماز کی ادائیگی کیلئے ڈوبا ہوا سورج آپؐ کے اشارے پر پلٹ کر آیا۔

اسی طرح قحط سالی میں مویشی وجانور بھوک وپیاس کی وجہ سے ہلاک ہو رہے تھے، آپؐ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، ایک اعرابی (دیہاتی) نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! قحط سالی کی وجہ سے مویشی ہلاک ہو رہے ہیں آپ بارش کیلئے دعاء فرمائیے، اسی وقت آپؐ نے دعاء کی تو فوراً بارش برسنا شروع ہوگئی اور برستی رہی یہاں تک کہ دوسرا جمعہ آگیا، پھر ایک دیہاتی نے عرض کیا: رسول اللہؐ! مسلسل بارش کی وجہ سے مکانات منہدم ہو رہے ہیں، راستے مسدود ہو گئے، آپؐ دعاء کیجئے کہ بارش رک جائے، ایک روایت میں ہے، آپؐ نے آسمان کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا تو مدینہ شریف سے سارا ابر چھٹ گیا اور دوسرے مقامات پر بارش برستی رہی۔

آپ کے اشارے سے ابر کا چھٹ جانا و بارش کا رک جانا ایک معجزہ تھا۔ اس طرح کے اکثر معجزات صحابہ کرامؓ کی حاجتوں کی تکمیل میں وقوع پذیر ہوئے یا محب ومحبوب کی ملاقات کی چاہت میں جیسے شبِ معراج کا معجزہ۔ آپؐ نے قوم کو اسلام کی طرف مائل کرنے کیلئے بہت کم معجزے پیش کئے۔ سابقہ انبیاء کی امتوں میں غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی امتیں اپنے نبیوں سے معجزہ طلب کیا کرتی تھیں، معجزہ پیش کرنے کے بعد وہ امتیں ایمان لے آتیں یا منکر ہوتیں۔

یہ نور نبیؐ کا فیض ہے۔ اللہ رب العالمین نے آپؐ کو بشر کے ساتھ نور والا نبی بنایا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ، بابي انت وامي! اخبرني عن اول شي خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الأشیاء، قال: یا جابر! ان اللہ تعالی قد خلق قبل الاشیاء نور نییبک من نورہ۔۔۔ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضورﷺ نے فرمایا: اے جابر! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پہلے تمہارے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نور الٰہی اس کا مادہ تھا بلکہ اس نے نور کے فیض سے) پیدا فرمایا، پھر وہ نور مشیت ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہا۔

اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتے تھے، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے نہ انسان۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کردیا: پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے۔ پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ۔‘‘ اس حدیث مبارک کو آج تک اتنے کثیر آئمہ کبار اور عظیم المرتبت محدثین نے نقل کیا ہے کہ یہ تلقی بالقبول کا درجہ رکھتی ہے اور اس وجہ سے شہرت وثقاہت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔

خلقت نور محمدیﷺ کے وقت کا تعین ناممکن ہے۔ کائنات میں تخلیق آدم سے پہلے حضورﷺ کب سے موجود تھے اس کا تعین کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: عن ابي ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ سال جبریل فقال یا جبرائیل کم عمرت من السنین؟ ’’حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل امین سے دریافت فرمایا: جبرائیل ذرا یہ تو بتلاؤ کہ تمہاری عمر کتنی ہے؟ حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا: آقا میری عمر کا تو مجھے صحیح اندازہ نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ (ساری کائنات کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حجابات عظمت میں سے) چوتھے پردہ عظمت میں ایک (نورانی) ستارہ چمکا کرتا تھا اور وہ ستارہ ستر ہزار سال کے بعد ایک مرتبہ چمکتا تھا۔ آقا میں نے اپنی زندگی میں وہ نورانی ستارہ بہتّر ہزار (72000) مرتبہ دیکھا ہے۔ حضورﷺ (تبسم کناں چہرہ انور کے ساتھ)

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی قادری، شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

 

a3w
a3w